Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Kumail
  4. Tehreek e Labbaik Pakistan, Urooj Se Zawal Tak Ka Safar

Tehreek e Labbaik Pakistan, Urooj Se Zawal Tak Ka Safar

تحریک لبیک پاکستان، عروج سے زوال تک کا سفر

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کچھ جماعتیں یا تحریکیں ایسی ہیں جو آسمان کو چھوتی ہیں اور پھر یک دم گر جاتی ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) بھی ایسی ہی ایک داستان ہے۔

غالباً 2015 میں ایک چھوٹی سی مذہبی جماعت کے طور پر شروع ہونے والی یہ تحریک چند سالوں میں ملک کی بڑی سیاسی قوت بن گئی۔ لیکن اب یہ جماعت ایک بار پھر بحران کا شکار ہے۔ پنجاب حکومت نے اس پر پابندی کی منظوری دے دی ہے، اس کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جا رہے ہیں اور اس کی مساجد و مدارس کو محکمہ اوقاف کے حوالے کیا جا رہا ہے جو کہ ایک شدید سیٹ بیک ہے۔

یہ زوال کیسے ہوا؟ اور اس کا عروج کیا تھا؟ آئیے، اس دلچسپ کہانی کو گہری نظر سے قلم بند کرتے ہیں۔

تحریک لبیک پاکستان کی داغ بیل 2015 میں مولانا خادم حسین رضوی نے ڈالی، جو ایک وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے آتش گیر مقرر تھے۔ وہ بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے اور شروع میں یہ جماعت توہین رسالت کے قوانین کی حفاظت پر مرکوز تھی۔ لیکن اصل شہرت 2017 میں ملی، جب فیض آباد دھرنے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ الیکشن ایکٹ میں حلف نامے کی تبدیلی کو توہین رسالت قرار دے کر ٹی ایل پی نے اسلام آباد اور راولپنڈی کو بلاک کر دیا۔ 21 دن تک جاری رہنے والے اس احتجاج نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور فوج کی مداخلت سے معاہدہ ہوا اور بحیثیت جماعت اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہی۔

یہ وہ لمحہ تھا جب ٹی ایل پی ایک چھوٹی جماعت سے قومی سطح کی طاقت بن گئی۔

اسی طرح جب 2018 کے انتخابات ہوئے تو ان عام انتخابات میں ٹی ایل پی نے حیران کن طور پر ووٹ حاصل کیے جو کہ ووٹوں کی تعداد کے حساب سے پانچویں نمبر پر براجمان رہی۔ تقریباً 22 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ صوبہ سندھ سے تین صوبائی نشستیں جیتیں اور پنجاب میں ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھری جو کہ ان کے لیے خوش آئند بات تھی۔

جب 2020 میں جماعت کے بانی رہنما خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سعد رضوی نے قیادت سنبھالی اور جماعت پاکستان کی سیاست میں متحرک رہنے کے لیے فرانس کے کارٹون تنازع پر ملک گیر احتجاج شروع کیا۔ احتجاج اتنا پرتشدد ہوگیا کہ جماعت کے پرتشدد ورکرز اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں پندرہ کے قریب پولیس اہلکار شہید ہوئے اور حکومت وقت نے ٹی ایل پی پر پابندی لگا دی۔

لیکن یہ پابندی عارضی تھی، چند ماہ بعد ہی اٹھا لی گئی اور ٹی ایل پی نے دوبارہ سڑکوں پر وقتاً فوقتاً اپنی سیاسی طاقت دکھاتی رہی اور احتجاجی اور سڑک کی سیاست پر چھائی رہی۔

جب 2024 کے انتخابات میں یہ ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر آئی، تقریباً 29 لاکھ ووٹ حاصل کرکے ایک کثیر جنونی مذہبی عوام کی پسندیدہ جماعت بن کر ابھری۔ اس جماعت کا ہمیشہ طرز سیاست بنیادی طور پر مذہبی جذبات کو سیاسی ہتھیار بنا کر جنونی اور مذہبی جذبات سے بھرپور جوانوں اور عوام کی پسندیدہ جماعت بن کر اپنا سکہ جمانے میں کامیاب رہی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ ٹی ایل پی کی یہ ترقی اتفاقی نہیں تھی۔ یہ جماعت 2016-2022 کے دور میں ریاستی اداروں کی پشت پناہی سے پروان چڑھی، خاص طور پر نواز شریف کی حکومت اور اس کی پیش رو حکومت تحریک انصاف کو کمزور کرنے کے لیے اس جماعت کو استعمال کیا گیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اب ٹی ایل پی ان مذکورہ جماعتوں کو ریپلیسمنٹ اور کمپیٹیٹر کے طور پر دیکھنے لگی۔

لیکن یہ ایک ایسا "فلاپ پراجیکٹ" تھا جو سیاسی مخالفین کو قابو کرنے کے لیے استعمال ہوا، لیکن اب یہ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

قارئین کرام، اب آتے ہیں حالیہ حالات کی طرف۔ 2025 میں ٹی ایل پی نے غزہ کے تنازع اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کی کال دی۔

اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی امن معاہدہ بظاہر امن معاہدہ ہے لیکن اس امن معاہدے میں غزہ کے عوام خصوصاً حماس کو نظر انداز کیا گیا اور اس امن معاہدے کا بالواسطہ فائدہ اسرائیل کو ہو رہا ہے۔ اسی بنیاد پر ٹی ایل پی نے لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کا منصوبہ بنایا اور امریکی سفارت خانے کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا۔

دس اکتوبر کو لاہور میں ٹی ایل پی ہیڈ کوارٹرز کے قریب پولیس سے جھڑپیں ہوئیں اور احتجاج پرتشدد ہوگیا۔ مریدکے کے مقام پر پولیس کی کارروائی میں 5 سے 13 کارکنان ہلاک ہوئے، 150 سے زائد زخمی ہوئے۔

ٹی ایل پی نے اسے "ریاستی دہشت گردی" قرار دیا اور سوشل میڈیا پر #13اکتوبرظلم_کی_داستان جیسے ہیش ٹیگ چل پڑے۔

حکومت نے سخت ردعمل دکھایا۔ پنجاب کابینہ نے ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دی، اسے تشدد اور اشتعال انگیزی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

راولپنڈی میں 8 مساجد کا کنٹرول محکمہ اوقاف کو دیا گیا، جو ٹی ایل پی سے وابستہ تھیں۔

اس کے ٹاپ ٹیر رہنماؤں کو فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کیے جا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی جیسی جماعتیں ٹی ایل پی سے اظہار یکجہتی کر رہی ہیں، جیسے کہ پشاور میں احتجاجی ریلیاں واضح مثال ہیں۔

لیکن یہ زوال کی علامت ہے، ایک بار پھر ٹی ایل پی کو "کالعدم" کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جو کہ ایک بہتر اقدام ہے۔

ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر بھی یہ موضوع گرم ہے۔ ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ٹی ایل پی کو جنرل باجوہ کے دور میں پروان چڑھایا گیا اور اب اسے ختم کیا جا رہا ہے۔

ایک اور پوسٹ میں اسے پاکستان کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا، کیونکہ یہ مذہب کو ہتھیار بنا کر ریاست کو چیلنج کرتی ہے۔

ٹی ایل پی کی کہانی ایک سبق ہے: جب مذہبی جذبات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جائے، تو یہ ایک دن قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اس کا عروج ریاستی پشت پناہی سے ہوا، لیکن اب یہ ایک "فرانکنسٹائن" بن چکی ہے جو ریاست کو ہی کاٹ رہی ہے۔

حالیہ کریک ڈاؤن سے لگتا ہے کہ اس کا زوال شروع ہوگیا ہے، لیکن کیا یہ مستقل ہے؟ ماضی میں پابندی لگی اور اٹھ گئی۔ پنجاب جیسے صوبے میں، جہاں ٹی ایل پی کی جڑیں گہری ہیں، یہ دوبارہ ابھر سکتی ہے۔

ریاست کو سوچنا چاہیے کہ کیا ہم ایسے "پراجیکٹس" کو مزید برداشت کر سکتے ہیں؟ ٹی ایل پی کی کہانی ایک آئینہ ہے، جو دکھاتی ہے کہ مذہب اور سیاست کا امتزاج کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اگر یہ زوال ہے، تو امید ہے کہ یہ ایک نئی شروعات کا آغاز ہو۔ لیکن اگر نہیں، تو ملک کو مزید انتشار کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam