Pakistan Mein Tehqeeq Ka Tamasha
پاکستان میں تحقیق کا تماشا

پاکستان کی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں ایک ایسا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے جو تحقیق کی روح کو مجروح کر رہا ہے۔ یہ ہے "تحقیق کے نام پر" بے شمار ریسرچ پیپرز چھاپنے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ ایک طرف تو یہ اعداد و شمار کی چکاچوند میں اکیڈمک کیریئر کو چمکانے کا ذریعہ بن رہا ہے، دوسری طرف یہ سائنسی معیاروں کی بنیاد کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
آج کل کے پروفیسرز اور ریسرچرز کو پروموشن، تنخواہ میں اضافہ اور فنڈنگ کے لیے پیپرز کی تعداد پر زور دیا جاتا ہے، نہ کہ ان کی کوالٹی پر۔ نتیجتاً، "پریڈیٹری جرنلز" یعنی وہ جریدے جو پیسے لے کر بغیر کسی مناسب ریویو کے پیپر شائع کر دیتے ہیں، پاکستانی اکیڈمیا میں ایک وبا کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔
یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں، لیکن پاکستان میں اس کی شدت حالیہ برسوں میں بڑھی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کی پالیسیاں، جو پروموشن کے لیے مخصوص تعداد میں پیپرز کی شرط رکھتی ہیں، اس رجحان کو ہوا دے رہی ہیں۔ ریسرچرز کو دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جلد از جلد پیپر شائع کریں، چاہے وہ معیاری نہ ہوں۔ ایک حالیہ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں"بوگس" پبلیکیشنز کا سلسلہ جاری ہے، جہاں ریسرچرز سیمبولک وائلنس کے تحت ایسے جرنلز کا انتخاب کرتے ہیں جو صرف پیسوں کے عوض پیپر چھاپتے ہیں۔
اس کے علاوہ، فزیکل ایجوکیشن اور سپورٹس سائنس جیسے شعبوں میں یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہے، جہاں ریسرچرز کی بڑھتی ہوئی تعداد پریڈیٹری پبلیکیشنز کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق، پاکستان کی ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز میں یہ رجحان اکیڈمک انٹیگریٹی کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔
اس رواج کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو "پبلش اور پیرش" کا اصول ہے، جو عالمی سطح پر اکیڈمیا میں رائج ہے، لیکن پاکستان میں اسے انتہائی لفظی طور پر لیا جا رہا ہے۔ ریسرچرز کو معلوم ہے کہ پریڈیٹری جرنلز میں پیپر شائع کروانا آسان ہے: کوئی سخت پیر ریویو نہیں، تیز رفتار پبلیکیشن اور بس چند سو ڈالرز کی فیس۔ ایک عالمی مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پبلش کرنے کا دباؤ اور ٹریننگ کی کمی کی وجہ سے ریسرچرز جان بوجھ کر ایسے جرنلز کا انتخاب کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہ مسئلہ اس لیے اور بھی پیچیدہ ہے کہ یہاں تحقیقی فنڈنگ محدود ہے اور پروموشن کے لیے پیپرز کی تعداد ہی سب کچھ ہے۔ نتیجہ؟ کوالٹی کی بجائے کوآنٹیٹی پر توجہ، جو سائنس کی ترقی کو روک رہی ہے۔
اس رجحان کے نتائج سنگین ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ پاکستان کی اکیڈمک ساکھ کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا رہا ہے۔ جب بین الاقوامی جرنلز اور کانفرنسز میں پاکستانی ریسرچرز کے پیپرز کی جانچ ہوتی ہے، تو بوگس پبلیکیشنز کی وجہ سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ دوسرا، یہ طلبہ اور نوجوان ریسرچرز کو غلط سبق دے رہا ہے کہ تحقیق کا مطلب صرف پیپر چھاپنا ہے، نہ کہ نئی دریافتیں کرنا۔ تیسرے، یہ صحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں غلط معلومات پھیلانے کا سبب بن رہا ہے، جو عوامی اعتماد کو متاثر کرتا ہے۔
عالمی سطح پر پریڈیٹری جرنلز کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو تحقیق کی ساکھ کو چیلنج کر رہی ہے۔
تو حل کیا ہے؟ HEC کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تعداد کی بجائے کوالٹی اور امپیکٹ فیکٹر پر زور دیا جائے۔ ریسرچرز کو پریڈیٹری جرنلز کی پہچان کی ٹریننگ دی جائے۔ یونیورسٹیوں میں اخلاقی تحقیق کی کمیٹیاں فعال کی جائیں جو بوگس پبلیکیشنز کی روک تھام کریں۔ اس کے علاوہ، حکومت کو تحقیقی فنڈنگ بڑھانی چاہیے تاکہ ریسرچرز کو جلد بازی میں پیپر چھاپنے کی ضرورت نہ پڑے۔
اگر ہم نے ابھی سے اس رجحان کو نہیں روکا، تو پاکستان کی تحقیق ایک کاغذی جنگل بن کر رہ جائے گی، جہاں درخت تو بہت ہوں گے لیکن پھل ایک بھی نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم تحقیق کی حقیقی روح کو بحال کریں، نہ کہ اسے اعداد و شمار کا کھیل بنائیں۔

