Pakistan Aur Afghanistan, Sarhadi Kasheedgi Ki Nayi Lehr
پاکستان اور افغانستان، سرحدی کشیدگی کی نئی لہر

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی ہے۔ 9 اکتوبر کو پاکستان کی جانب سے کابل، خوست، جلال آباد اور پکتیکا میں فضائی حملے کیے گئے، جن کا ہدف تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنما نور ولی محسود کو قرار دیا گیا۔
ان حملوں کے فوری بعد افغان طالبان نے جوابی کارروائی کا اعلان کر دیا، جس میں پاکستانی فوجی چوکیوں پر حملے کیے گئے۔ طالبان کے دعوے کے مطابق، ان کی کارروائی میں کئی پاکستانی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہے، جبکہ پاکستان کی جانب سے بھی طالبان کو شدید جانی نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یہ واقعات ڈیورنڈ لائن کے ساتھ بھڑکے، جو دونوں ممالک کے درمیان تنازع کی جڑ رہی ہے اور اب تک جاری جھڑپوں نے علاقائی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یہ کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1893 میں برطانوی نوآبادیاتی دور میں کھینچی جانے والی ڈیورنڈ لائن ہے جو افغانستان اور پاکستان کو الگ کرتی ہے، ہمیشہ سے ایک متنازع سرحد رہی ہے۔ افغان حکومتیں اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتی آئی ہیں، جبکہ پاکستان اسے اپنی خودمختاری کی علامت سمجھتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، افغان طالبان کی واپسی کے بعد سے، ٹی ٹی پی جیسے عسکری گروہوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں، جو افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔ پاکستان کا الزام ہے کہ طالبان ان دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں، جبکہ کابل ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
2024 میں بھی دونوں ممالک نے سرحدی جھڑپیں دیکھی تھیں، لیکن اس بار کی شدت سابقہ واقعات سے کہیں زیادہ ہے۔ 11 اکتوبر کی رات کو پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان شدید فائرنگ ہوئی، جس میں پاکستان نے بلوچستان کے برمچہ سیکٹر میں افغان شاہدان پوسٹ کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس تنازع کی جڑیں گہری ہیں۔ ایک طرف پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی مہم ہے، جو 2021 میں افغان فال آف کابل کے بعد مزید پیچیدہ ہوگئی۔
ٹی ٹی پی، جو القاعدہ اور داعش جیسے گروہوں سے وابستہ ہے، پاکستان میں خودکش حملوں اور فوجی چوکیوں پر حملوں کا ذمہ دار ہے۔ دوسری طرف، افغان طالبان اپنی سرزمین کی سالمیت کو چیلنج سمجھتے ہیں اور پاکستانی حملوں کو "غاصبانہ" قرار دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ، معاشی اور مہاجرین کے مسائل بھی اس کشیدگی کو ہوا دیتے ہیں۔ پاکستان نے حالیہ مہینوں میں لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس بھیجا ہے، جو کابل کی معیشت پر بوجھ بن رہے ہیں۔ پانی کے تنازعات، جیسے کہ کُشاف دریا پر ڈیم تعمیر، بھی پس منظر میں موجود ہیں۔
عالمی برادری کی جانب سے فوری ردعمل سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب نے دونوں ممالک سے تحمل اور مکالمے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ "خردمندی اور بات چیت سے تناؤ کم کیا جا سکتا ہے"۔
قطر نے بھی علاقائی سلامتی کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے دونوں فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا ہے۔
طالبان کے دفاع وزارت نے سعودی بیان کے بعد اپنی "جوابی کارروائی" ختم کرنے کا اعلان کیا، جو ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن پاکستان کی جانب سے ابھی سرکاری ردعمل کا انتظار ہے۔
امریکہ اور چین جیسے بڑے کھلاڑی بھی خاموش نہیں رہ سکتے، کیونکہ یہ تنازع وسطی ایشیا کی تجارت اور چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کو متاثر کر سکتا ہے۔
یہ کشیدگی نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہے۔ پاکستان، جو پہلے ہی معاشی بحران اور اندرونی سیاسی عدم استحکام سے نبردآزما ہے، مزید فوجی ایڈونچرز برداشت نہیں کر سکتا۔ افغانستان، جو طالبان کے اقتدار میں بھی انسانی اور معاشی بحران کا شکار ہے، جنگ کی بھٹی میں جلنے کا متحمل نہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تنازع ہندوستان اور دیگر علاقائی طاقتوں کی پروکسی جنگ کا حصہ بھی ہو سکتا ہے، جہاں ڈیورنڈ لائن کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔
حل صرف مکالمے میں ہے پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ انسداد دہشت گردی کے لیے ایک فریم ورک بنانا چاہیے، جہاں ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو ختم کرنے پر اتفاق ہو۔ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے یا اس پر اعتماد سازی کے اقدامات، جیسے مشترکہ سرحدی مارکیٹس اور تجارت، تناؤ کم کر سکتے ہیں۔ عالمی برادری، خاص طور پر سعودی عرب اور قطر، ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آخر میں، ہمسایہ اور اسلامی ممالک ہیں جو صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جنگ کی بجائے، امن اور ترقی کا راستہ اپنانا ہی ان کی بہتری ہے۔

