Khoon Aur Aansuon Ki La Mutnahi Dastan
خون اور آنسوؤں کی لامتناہی داستان

آج، 8 اکتوبر 2025 کو، جب دنیا کی نظریں ایک بار پھر فلسطین کی سرزمین پر مرکوز ہیں، تو یہ دوسرا سال ہے اس المناک سانحے کا جو 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوا۔ حماس کی طرف سے اسرائیلی علاقوں پر حملے، جن میں تقریباً 1,200 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور 250 کو یرغمال بنایا گیا۔
اس کے جواب میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلسل بمباری اور زمینی حملوں نے ایک پوری قوم کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ غزہ، جو پہلے ہی محاصرے کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، اب ایک کھنڈر بن چکا ہے جہاں ہر گھر، اسکول، ہسپتال تباہی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں نے "نسل کشی" کا ارتکاب کیا ہے جو نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی توہین بھی۔
اکتوبر سات 2023 کو حماس کے حملوں نے اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ حملہ، جو فلسطینی مزاحمت کی ایک شدید شکل تھا، عالمی میڈیا کی توجہ مبذول کر لی۔ اسرائیلی حکام نے اسے "تاریخ کا سب سے خونریز دن" قرار دیا اور فوری طور پر غزہ پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے۔ ابتدائی مہینوں میں ہی غزہ کی پٹی پر بموں کی بارش ہوئی، جس سے ہزاروں شہری ہلاک ہوئے۔ غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک کم از کم 67,160 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ 169,679 زخمی ہیں۔۔
یہ اعداد و شمار صرف اعدادوشمار نہیں، بلکہ ماں باپ، بچوں، ڈاکٹروں اور اساتذہ کی کہانیاں ہیں جو دھماکوں کی آوازوں میں گم ہوگئیں۔ فلسطینی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ حملے محض "جوابی کارروائی" نہیں بلکہ ایک منظم نسل کشی کا حصہ ہیں۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دوسرے سال میں اسرائیلی فوج نے "نئی تخلیقی طریقوں" سے قتل عام کیا، جیسے کہ بجلی کے کڑکڑاتے تاروں سے تشدد اور بھوک کو ہتھیار بنانا۔۔
اقوام متحدہ کی کمیشن آف انکوائری نے ستمبر 2025 میں واضح طور پر کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں"جنوسائیڈل ایکٹس" (نسل کشی کے اعمال) اور "جنوسائیڈل انٹینٹ" (نسل کشی کا ارادہ) دونوں کا ارتکاب کیا ہے۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ICJ) کے فیصلوں سے ہم آہنگ ہے، جہاں"جنوسائیڈل انٹینٹ" کو دستیاب شواہد سے واحد منطقی نتیجہ قرار دیا گیا۔
اسرائیلی نقطہ نظر سے، یہ جنگ حماس کو ختم کرنے اور یرغمالوں کو واپس لانے کی کوشش ہے۔ چا تھم ہاؤس کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی عوام میں جنگ کے حوالے سے تقسیم بڑھ رہی ہے اور کئی اسرائیلی اب "حساب کتاب" کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ دو سال بعد بھی حماس مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
تاہم، واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کی ایک تجزیہ کار رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اسرائیل کی فوجی کامیابیاں اس کی ناکامیوں سے دھندلی ہوگئی ہیں، جیسے کہ غزہ میں مستقل امن قائم نہ کر پانا۔۔
مارچ 2025 میں اسرائیل نے غزہ سٹی، خان یونس اور رفح میں نئی مہم شروع کی جو عالمی سطح پر اس کی تنہائی کو مزید بڑھا رہی ہے۔
دو سالہ جنگ نے غزہ کو ایک کھلی جیل سے ایک موت کا کھنڈر بنا دیا ہے۔ یو ایس اے ٹوڈے کی ایک ویژول رپورٹ میں غزہ کی تباہی کو "دو سال کی موت و تباہی" قرار دیا گیا ہے، جہاں 66,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور شہر مکمل طور پر برباد تباہی کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق، 2025 کے وسط تک غزہ میں"تباہ کن سطح" کی غذائی عدم تحفظ ہے اور غزہ سٹی میں قحط کی تصدیق ہو چکی ہے۔ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں، ہر 1,000 میں سے 30 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ محض جنگ نہیں، بلکہ ایک منظم منصوبہ ہے جو صہیونی استعمار کی بنیادوں پر قائم ہے۔ ٹری کنٹیننٹل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 2025 کو نسل کشی کا دوسرا سال پورا ہونے پر کم از کم 66,000 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
ایک حالیہ پول میں، امریکہ کے تقریباً 40 فیصد یہودیوں نے تسلیم کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی ہے اور بھی شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔
غزہ کی تعمیر نو اور حکمرانی کے چیلنجز اب ایک بڑا سوال ہیں۔ بروکینگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق، ایک سال اور آدھے بعد، غزہ کے سامنے آنے والے مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں: تباہی، بے گھری اور سیاسی خلا ہے۔۔
فلسطینیوں کے لیے، یہ "صہیونی بخار کا خواب" بن سکتا ہے، جہاں غزہ کو ایک نئی قسم کی نوآبادیاتی جیل میں تبدیل کر دیا جائے۔
دو سال گزرنے کے باوجود، عالمی برادری کی خاموشی شرمناک ہے۔ ال انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ نے "ہمارے دور کی سب سے تباہ کن بمباری اور انسانی بحران" برداشت کیا ہے۔۔ لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں حتمی فیصلے نہیں ہوئے۔ امن مذاکرات دوسرے دن میں داخل ہو چکے ہیں لیکن فلسطینیوں کی نظروں میں یہ محض وقت کی ضیاع ہے جب تک اسرائیل پر پابندیاں نافذ نہ ہوں۔
ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر حالیہ پوسٹس بھی اسی درد کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایک صارف رضاء زیدی نے لکھا کہ غزہ کی شمال میں"نیٹیف ہا اسارہ" میں میزائل سائرن بج رہے ہیں اور "جنگی جرائم کے دو سال بعد بھی" یہ سلسلہ جاری ہے۔
یہ پوسٹ، جو ایک تصویر کے ساتھ شائع ہوئی، ظاہر کرتی ہے کہ دونوں اطراف تناؤ برقرار ہے، لیکن فلسطینیوں کا درد زیادہ گہرا ہے۔
دو سال بعد، غزہ کی نسل کشی ایک نہ ختم ہونے والی داستان بن چکی ہے۔ فلسطینی قوم، جو ہمیشہ مزاحمت کی علامت رہی ہے، اب بھی کھڑی ہے، لیکن اس کی قیمت ناقابل برداشت ہے۔ اسرائیل کی تنہائی بڑھ رہی ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا، عرب لیڈرز اور عالمی طاقتیں خاموشی توڑیں۔ کیا ہم غزہ کو بھول جائیں گے، یا اسے آزادی کا درس دیں گے؟

