Zinda Sufi
زندہ صوفی

صوفی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو تصوف اور روحانیت کا رستہ اختیار کرتے ہیں اور اپنی زندگی اللہ کی محبت، سچائی، انسانیت کی خدمت اور باطنی صفائی کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ ایسے بے شمار روحانی صوفیائے کرام سے بھری پڑی ہے جن میں حضرت علی ہجویریؒ، حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ، حضرت بہاؤدین زکریا ملتانیؒ، شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ اور قونیا کے روحانی بزرگ حضرت مولانا جلال الدینؒ کے علاوہ کئی بزرگ روحانی شخصیات شامل ہیں۔
ہر دور میں دنیا کے ہر خطے میں صوفیائے کرام تو موجود ہوتے ہی ہیں لیکن ان لوگوں کی پہچان بھی وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کا قلب اللہ کی محبت اور سچائی کی تلاش سے بھرا ہو۔ علی عباس صاحب ان شخصیات میں شامل ہیں جو اس جدید دور میں تصوف کی تلاش میں دنیا کے مختلف کونوں میں گھومتے پھرتے رہے اور چند ایسی شخصیات کے ساتھ اسفار کیے اور ان کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا جو تصوف کے راستے پر چل رہے ہیں۔ علی عباس صاحب نے ان تمام روحانی شخصیات سے جو کچھ سیکھا اسے اپنی نئی کتاب "زندہ صوفی" میں درج کر دیا۔
تصوف سے محبت رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ کتاب یقیناََ معلومات کا خزانہ ہے۔ 16 جون 2025ء کو علی عباس کی اس نئی کتاب کی تقریب پذیرائی قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن میں منعقد ہوئی جس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس تقریب میں چند وہ شخصیات بھی شامل تھیں جن کے بارے میں علی عباس نے اس کتاب میں تحریر کیا ہے۔ میں اس تقریب کی روداد بتانے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ علی عباس صاحب سے میری پہلی ملاقات مارچ 2018ء میں اس وقت ہوئی تھی جب ہم قاسم علی شاہ صاحب کی سربراہی میں سات دنوں کے لیے ازبکستان گئے تھے۔ اس سیاحتی دورہ میں علی عباس کا ایک اہم کردار تھا جو اس ٹور کے آرگنائزر بھی تھے۔ اس سے پہلے میں نے یوٹیوب پر علی عباس کی چند ویڈیوز اور لیکچرز سن رکھے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ہم 125 کے قریب لوگ مغل اعظم ہوٹل لاہور میں اکٹھے تھے، مائک علی عباس کے ہاتھ میں تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم اگلے سات دنوں کے لیے ازبکستان کا سفر کر رہے ہیں لیکن جب تک ہم ایک دوسرے کو جانیں گے نہیں، تو پھر سفر کا کیا مزہ آئے گا؟ ان کی بات ٹھیک تھی کیونکہ ہم لوگوں کی یہ عام عادت ہوتی ہے کہ کسی تقریب میں ہمارے ساتھ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے اجنبی لوگوں سے ہم بات نہیں کرتے چاہے ہم گھنٹوں ہی کیوں نہ بیٹھے رہیں۔ وہاں بھی یہی صورتحال تھی کیونکہ وہاں بھی پاکستان کے مختلف علاقوں سے لوگ اکٹھے تھے اور کوئی ایک دوسرے کو نہیں جانتا تھا اور سب اپنے اپنے موڈ میں بیٹھے تھے لیکن جب علی عباس نے کہا کہ آپ لوگوں کے پاس پانچ منٹ ہیں آپ سب ایک دوسرے کو اپنا اپنا تعارف کروائیں اور اس تقریب کے بعد سب لوگ ایک دوسرے سے ملیں تاکہ اگلے سات دن ہم اپنی زندگی کے یادگار دن بنا سکیں، سب نے ایسے ہی کیا اور کمال ہوگیا۔
صبح ایئرپورٹ پر جب وہی سب اکٹھے ہوئے تو یوں لگا جیسے وہ سالوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے کیسے جوڑا جاتا ہے؟ یہ وہ پہلا کمال تھا جو میں نے علی عباس کی شخصیت میں دیکھا۔ ازبکستان کے سفر کے اختتام پر تمام 125 لوگوں کا دعوی تھا کہ علی عباس میرا بہترین دوست ہے، اس سے آپ ان کی شخصیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس قدر ملن سار اور لوگوں کی زندگیوں میں ایک مثبت کردار ادا کرنے والے شخص ہے۔
میری یہ خوش قسمتی ہے کہ مجھے علی عباس صاحب کے ساتھ ازبکستان، سری لنکا، ملائشیا، تھائی لینڈ اور سنگاپور کے اسفار کے علاوہ اندرون ملک پاکستان میں کئی جگہوں پر اکٹھے سفر کرنے کا موقع ملا۔ کسی بھی شخصیت کا صحیح اندازہ لگانا ہو کہ وہ کس طرح کا شخص ہے؟ تو اس کے ساتھ سفر کریں۔ کیونکہ سفر میں آپ اپنی اصل کو نہیں چھپا سکتے۔ آپ جو بھی ہیں آپ کی ساری شخصیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ میں نے علی عباس کو ان تمام اسفار کے دوران حیران کن صلاحیتوں کا حامل شخص پایا۔ یہ بلا شبہ ایک مثبت سوچ کا حامل شخص ہے، ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ویلیو ایڈ کرنے والا شخص، ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں کو سرہانے والا شخص، غیبت نہ کرنے والا شخص، امید دلانے والا شخص، دوسروں کو خود اعتمادی اور حوصلہ دینے والا شخص۔
مجھے یاد ہے کہ جب ہم ازبکستان سے واپسی کے لیے جہاز میں اکٹھے بیٹھے تھے تو میں نے علی عباس سے پوچھا تھا کہ کتاب کیسے لکھنی چاہیے؟ تو انہوں نے مجھے بہت سی مفید ٹپس دی تھی اور ایسے ہی میری تیسری کتاب "گزرے دنوں کی یاد" کی تقریب رونمائی کے حوالے سے سنگاپور سے واپسی پر جہاز میں بیٹھے ہوئے علی عباس صاحب نے تقریب کا سارا پروگرام ترتیب دیا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے ہمیشہ علی عباس صاحب کو ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی کا پرچار کرتے ہوئے پایا۔ اسی طرح وہ ہمیشہ فرقوں سے بالاتر ہو کر سوچتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ "زندہ صوفی" کتاب بھی وہی شخص لکھ سکتا تھا جو خود بھی درویشی والی زندگی گزار رہا ہو ورنہ ایسے حساس موضوع پر ایک عام شخص لکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
علی عباس نے زندہ صوفی کے پیش لفظ میں لکھا کہ میں نے دیکھا کہ دنیا کے سارے شعبوں میں انسان کی قدر، اہمیت اور عزت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک انسان کے پاس اقتدار ہو، پیسہ ہو یا جوانی ہو لیکن میں ہمیشہ اس شعبے کی تلاش میں رہا جہاں آپ شخصیت کو کبھی زوال نہ آئے۔ لہذا میں نے اس کھوج میں کئی ممالک کے سفر کیے، چلے لگائے لیکن اس سوال کا جواب مجھے بابا اشفاق صاحب مرحوم کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران ملا۔
علی عباس کہتے ہیں کہ بابا اشفاق مرحوم سے میری ملاقات ان کے آخری ایام میں ہوئی تھی، ان دنوں وہ کافی بیمار تھے ان کے شاگرد ان کو سہارا دے کر ڈرائنگ روم تک لائے تھے۔ میں نے دیکھا کہ عمر کے اس حصے میں بھی لوگوں کے دلوں میں ان کی کس قدر محبت اور احترام ہے تو مجھے اپنی زندگی کا مقصد مل گیا۔ لہذا میں نے علم کے اس راستے کو چنا جو تصوف کی طرف لے کر جاتا ہے۔ یہی وہ راستہ تھا جس میں انسان جوں جوں بوڑھا ہوتا چلا جاتا ہے اس کی عزت اور قدر میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے ہمیشہ روحانی شخصیات کے ساتھ مختلف مقامات کے سفر کیے اور ان کی زندگیوں سے جو کچھ سیکھا اسے اس کتاب میں تحریر کر دیا۔
ویسے تو علی عباس کی شخصیت کے بے شمار پہلو ہیں جن کا ذکر میں یہاں کرنے لگوں تو تحریر بہت لمبی ہو جائے گی۔ اس لیے میں مختصرا ان کی کتاب "زندہ صوفی" کے حوالے سے ہی بات کروں گا۔ 16 جون کو ہونے والی تقریب پذیرائی میں جن مقررین نے اظہار خیال کیا ان میں بابا محمد یحیی خان، طارق محمود چغتائی، قاسم علی شاہ، عبداللہ بھٹی، قمر اقبال صوفی، گلسانہ منشا اور معاذ ہاشمی شامل تھے۔ ان تمام مقررین نے علی عباس کی شخصیت اور ان کی لکھی کتاب حوالے سے بات کی۔ اس تقریب میں شرکت سے جہاں مجھے ان تمام شخصیات سے ملنے کا موقع ملا وہیں بےشمار پرانے دوستوں سے ملاقات ہوگئی۔
قاسم علی شاہ صاحب فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد دو دن قبل ہی پاکستان واپس تشریف لائے ہیں۔ صبح ساڑھے دس میں نے اپنے دوست شیر علی شاہ جو کہ پتوکی سے تعلق رکھتے ہیں، کے ساتھ شاہ جی ملاقات کی اور انہیں حج کی مبارک باد دی اور پھر علی عباس کی کتاب "زندہ صوفی" کی تقریب پذیرائی میں شرکت کی۔ قاسم علی شاہ چونکہ علی عباس کے پرانے ساتھی ہیں لہذا انہوں نے اس تقریب میں ان ایام کا ذکر کیا جب ان دونوں نے کسی چائے کے کھوکے پر بیٹھ کر ایسے خواب دیکھے تھے کہ ہم کس طرح سوسائٹی میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
شاہ جی کا کہنا تھا کہ ہم نے جو خواب اکٹھے دیکھے تھے اللہ نے ہمیں اس سے ہزار گنا زیادہ عطا کیا۔ عبداللہ بھٹی ایک معروف روحانی شخصیت ہیں انہوں نے اپنی روحانی سفر کی داستان سنائی اور بتایا کہ کس طرح کوئی بھی شخص بدی سے نیکی کی طرف آ کر کثافت سے لطافت کا سفر طے کر سکتا ہے۔ تقریب کے آخر میں علی عباس نے کہا اس مثبت کام کی برکت ہے کہ میں آج تک 30 سے زائد ممالک اور اندرون ملک 100 سے زیادہ جگہوں کا وزٹ کر چکا ہوں جس سے میری زندگی میں بے شمار مثبت تبدیلیاں آئیں۔ علی عباس جیسی شخصیت جو ہمیشہ کسی کے لیے مثبت سوچ رکھتا ہے اور کسی نہ کسی طرح دوسروں کی زندگیوں میں مثبت کردار ادا کرتا رہتا ہے ان کے لیے یہ میری دعا ہے کہ اللہ کریم! انہیں صحت والی لمبی زندگی دے تاکہ وہ اسی طرح سوسائٹی میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہیں۔

