Thailand Mein Char Din
تھائی لینڈ میں چار دن

ہم اس وقت تھائی لینڈ کے شہر پتایا کہ ساحل سے ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے سمندر کے اندر لکڑی کے بنے ایک بہت بڑے پلیٹ فارم پر موجود تھے۔ وہاں لگ بھگ اڑھائی تین سو کے قریب لوگ تھے جو پیراگلائیڈنگ سے لطف اندوز ہونے کے لیے اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اور 10-15 لڑکے جو سارے نظام کو کنٹرول کر رہے تھے ایک ایک بندے کو گلائیڈنگ کے لیے بلا رہے تھے۔
ہمارے گروپ لیڈر نے ہمیں بھی وہاں قطاروں میں لوگوں کے ساتھ بینچز پر بٹھا دیا۔ ایک صحت مند سا لڑکا تمام لوگوں کو پیرا گلائیڈنگ کے لیے ہدایات دے رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر آپ میں کوئی شوگر کا مریض ہے یا بلڈ پریشر کا، کسی کو بخار ہے یا کسی کو کوئی بھی بیماری ہے تو اسے پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پھر بھی پیرا گلائیڈنگ کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر ایک کو پیرا گلائیڈنگ کے لیے تیار کر رہا تھا مگر اس کی باتیں بھی مجھ میں اتنی ہمت پیدا نہ کر سکیں کہ میں بھی پیرا گلائیڈنگ کا ارادہ کر لیتا۔
میں نے دوستوں کو کہا کہ میں یہاں ساجد خان باطور صاحب کے پاس بیٹھوں گا آپ لوگ ضرور اس سے لطف اندوز ہوں۔ وہاں کی لوکیشن اچھی تھی، میں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور نامور اینکر پرسن اسد اللہ خان جو کہ ہمارے ساتھ ہی اس گروپ میں شامل تھے، کو پکڑ لیا اور ان کا ایک انٹرویو ریکارڈ کر لیا۔ فروری کے مہینے میں پاکستان میں تو عام طور پر کافی ٹھنڈ ہوتی ہے لیکن تھائی لینڈ میں موسم کافی گرم ہو چکا تھا۔ خان صاحب اور میں نے وہیں سے دو ناریل لیے اور اس کا فریش جوس پینے لگے۔
ہم دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے تو اس دوران مجھے ایک شخص کی باتوں کی آواز سنائی دی جو میری بیک سائیڈ پہ بیٹھا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ میں پاکستانی ہوں اور مظفر گڑھ کے فلاں علاقے کا رہنے والا ہوں۔ اس کے پاس ہمارے ہی گروپ کا بیٹھا شخص بھی شاید مظفر گڑھ کا تھا اس لیے وہ اسے سمجھا رہا تھا کہ ہمارا گھر کس جگہ ہوتا تھا۔ وہ اسےاپنی کہانی سنا رہا تھا کہ پاکستان میں ہمارا کپڑے کا بہت اچھا کاروبار تھا لیکن 2007 میں پاکستان میں شدید لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی، جس کی وجہ سے ہمارا کام بہت زیادہ متاثر ہوا اور میں دبئی شفٹ ہوگیا لیکن وہاں بھی سیٹ ہو سکا، اس کے بعد میں ساؤتھ افریقہ گیا وہاں بھی میرا کام نہ چلا۔
میں دھکے کھاتا ہوا یہاں تھائی لینڈ آگیا اور یہاں یہ کام شروع کر دیا۔ جب میں نے اس کی یہ بات سنی تو مڑ کر پیچھے دیکھا۔ اس شخص کا چہرہ مجھے مانوس سا لگا۔ اس شخص کے سر بال کم تھے اور اس نے فرینچ داڑھی رکھی ہوئی تھی، آنکھوں پر چشمہ لگا رکھا تھا اور گلے میں سونے کے بڑی بڑی چینز پہن رکھی تھیں اور ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھیاں۔ اس شخص کو دیکھتے ہی میں سوچنے لگا کہ میں نے اسے پہلے کہاں دیکھا ہے؟ تھوڑی دیر سوچتا رہا تو اچانک میرے ذہن نے کلک کیا کہ اسے تو میں کہیں نہیں ملا البتہ اس کی شکل ہمارے دوست ڈاکٹر الیاس صاحب سے بہت زیادہ ملتی ہیں۔
اب میں اس کی باتیں زیادہ توجہ سے سننے لگا۔ کمال یہ تھا کہ اس شخص کی شکل ہی ڈاکٹر صاحب سے نہیں ملتی تھی بلکہ اس کے بات کرنے کا انداز بھی حیران کن حد تک ڈاکٹر صاحب جیسا تھا۔ خیر میں خاموشی سے اس کی کہانی سنتا رہا۔ اتنے میں اس نے ہم سب دوستوں کے لیے چائے منگوا لی۔ وہ بتانے لگا کہ میں جب یہاں تھائی لینڈ کے شہر پتایا میں آیا تو یہاں پیراگلائیڈنگ کرانے والوں میں انڈین چھائے ہوئے تھے۔
میں نے بھی یہاں چند چھوٹی کشتیاں خریدیں اور یہاں کے ہی چند لوکل لڑکے اپنے ساتھ ملا کر کام شروع کر دیا۔ اللہ نے مجھ پر خاص کرم کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میں اپنی کشتیاں بڑھاتا چلا گیا اور اپنے اس کام میں میں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آج میرے پاس یہاں ایک ہزار کے قریب کشتیاں ہیں اور پتایا کے اس ساحل پر پیراگرایڈنگ کا سب سے بڑا کاروبار میرا ہے۔ یہاں ہر روز ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ میرے چھوٹے دو بھائی بھی یہاں میرے ساتھ کام کرتے ہیں اور ہم لوگوں نے اپنی خاص پہچان کے لیے یہ سونے کی بڑی بڑی چینز پہن رکھی ہیں۔
ہمیں یہاں زیادہ تر لوگ سونے کی چینز ہمارے بھائی سے جانتے ہیں۔ اس شخص کا بات کرنے کا انداز بھی بہت دھیما اور فرینڈلی تھا۔ ہم لوگوں نے چائے پی اسی دوران میری اس شخص سے مزید گپ شپ ہونے لگی۔ میں نے اسے ڈاکٹر الیاس صاحب کی ایک تصویر دکھائی کہ یہ دیکھیں آپ کے ایک ہم شکل۔ وہ ڈاکٹر صاحب کی تصویر دیکھ کر حیران ہوا اور مسکرا کر کہنے لگا، انکی شکل تو واقعی مجھ سے ملتی ہے۔
میں نے اسے بتایا یہ آج کل محکمہ صحت پنجاب کے ڈی جی ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہندو متھیالوجی کے مطابق دنیا میں ایک ہی وقت میں سات ہم شکل موجود ہوتے ہیں لیکن وہ کہاں کہاں موجود ہوتے ہیں یہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ یہ بات کہاں تک درست ہے میں یہ تو نہیں جانتا مگر ہم سب کے ساتھ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ہمیں اس دنیا میں کچھ ہم شکل لوگ نظر ضرور آتے ہیں بلکہ ان کی آوازیں اور عادات بھی کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوتی ہیں، یقیناََ یہ خدا کی قدرت ہے۔ بہرحال میں نے یادگار کے طور پر اس کے ساتھ ایک تصویر بنا لی۔
فروری 2024ء میں ہمارے چار ممالک کے ٹور کے دوران ہمارا آخری ٹور تھائی لینڈ میں تھا۔ ہم 32 لوگوں کا گروپ بنکاک کے ایئرپورٹ پر اترا اور ٹیکسیوں کے ذریعے ہم سیدھا پتایا روانہ ہو گئے۔ دو دن ہم نے پتایا رکنا تھا اور دو دن بنکاک۔ جونہی ہم ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو بنکاک شہر مجھے بہت گنجان آباد سا محسوس ہوا۔ ہر طرف بلند و بالا عمارتیں تھی لیکن صفائی کا نظام متاثر کن نہیں تھا۔
شاید وہ مجھے اس لیے محسوس ہو رہا تھا کہ ہم سنگاپور سے یہاں آئے تھے اور سنگاپور میں صفائی کا نظام یوں تھا جیسے وہ صفائی کو مکمل ایمان کا درجہ دیتے ہوں۔ راستے میں ہم ایک ریسٹ ایریا پر کچھ کھانے کے لیے رکے لیکن وہاں حلال فوڈ نہ ہونے کے برابر تھا لہذا ہمیں بسکٹ اور جوس پر ہی گزارا کرنا پڑا۔ پتایا شہر اپنے ریزورٹس اور بیچز کی وجہ سے مشہور ہے، دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے ہیں اور یہاں کے تفریحی مقامات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہم رات کے وقت پتایا پہنچے، رات آرام کے بعد دوسرے دن ہم پیراگلائیڈنگ، سکوبا ڈائیونگ اور ساحل سمندر کو دیکھنے کے لیے نکلے۔
ساحل سے چھوٹی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے سمندر کے درمیان بنے لکڑی کے اس پلیٹ فارم پر پہنچے جہاں میری ملاقات مظفرگڑھ کےاس شخص سے ہوئی جو پیرا گلائیڈنگ کے اس سارے کاروبار کا مالک تھا، جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ انسان کے ذہن میں کچھ خوف بچپن سے ہی اتنے شدید ہوتے ہیں کہ انسان کبھی اس خوف سے نہیں نکل پاتا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں پیرا گلائیڈنگ یا سمندر کے اندر غوطہ خوری چاہنے کے باوجود نا مصر میں کر سکا اور نہ ہی یہاں۔ جبکہ ہمارے گروپ میں ایک پاکستانی کپل جن کی عمر لگ بھگ 70,75 سال ہوگئی اور وہ امریکہ سے اس ٹور میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے تھے، دونوں میاں بیوی تمام ایکٹیوٹیز سے لطف اندوز ہو رہے تھے جن کو دیکھ کر ہی میرا دل گھبرا رہا تھا۔
پتایا میں ہم دو دن رہے اور اس کے بعد ہم بنکاک آگئے۔ پتایا کی طرح بنکاک کا ماحول بھی بہت ہی لبرل ہے۔ 23 فروری کو ہم بنکاک میں تھے اور اس دن اسد اللہ خان کی شادی کی سالگرہ تھی۔ ہمارے گروپ کے لیڈر میاں عثمان نے ہوٹل ہی میں ان کے لیے کیک کا اہتمام کیا اور یوں وہیں تمام گروپ ممبرز نے انہیں سالگرہ کی مبارکباد دی۔ اس ٹور میں ہمارے ساتھ صوابی سے تعلق رکھنے والے صدیق خان بھی موجود تھے جو آج کل جرمنی میں سیٹل ہیں۔ صدیق صاحب بہت ہی باکمال اور عاجز انسان ہیں، میری اس ٹور کے دوران ہی ان سے ملاقات ہوئی اور دوستی ہوگی۔
23 فروری کی شام صدیق بھائی نے اسد اللہ خان، ان کی فیملی اور مجھے کروز ڈنر کروایا اور اس طرح وہ شام ہمارے لیے یادگار بن گئی۔ دنیا کا ہر وہ ملک جو سمندر کے کنارے آباد ہے وہاں سیاحوں کی تفریح کے لیے کروز ڈنر جیسی ایکٹیوٹیز ہوتی ہیں۔ مصر، ترکی، دبئی اور تھائی لینڈ میں میں نے کروز ڈنر کیا جو تقریباََ ایک جیسا ہی تھا، بس صرف کلچر کا فرق تھا۔ کروز ڈنر کے دوران ہر ملک اپنے اپنے کلچر کو سیاحوں کے سامنے پیش کرتا ہے، باقی تو کچھ فرق نہیں ہوتا۔ ایسی سرگرمیاں یقیناََ سیاحوں کے لیے تفریح کا باعث ہوتی ہیں۔
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم کراچی اور گوادر میں اسی طرز پر سیاحوں کے لیے تفریح کا بندوبست کریں تاکہ پاکستان میں بھی سیاحت کو فروغ مل سکے۔ بنکاک میں دوسرے دن ہم نے سٹی ٹور کیا اور شہر کی مشہور جگہیں دیکھیں۔ یہاں میں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ بنکاک ایئرپورٹ کا عملہ آنے والے سیاحوں کو بہت اچھے انداز سے خوش آمدید کہتا ہے اور سیاحوں سے زیادہ سوالات بھی نہیں کیے جاتے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ تھائی لینڈ ملک کی اکانومی کا زیادہ تر انحصار ٹورزم انڈسٹری پر ہے۔ تھائی لینڈ دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جو سیاحت سے ہر سال تقریباََ 50 بلین ڈالر زر مبادلہ کماتے ہیں۔
تھائی لینڈ سنگاپور کے مقابلے میں سستا ترین ملک ہے۔ 24 فروری کو بنکاک سٹی ٹور کے دوران ہم نے ایک گولڈن ٹیمپل دیکھا، جس میں بدھا کا تین میٹر اونچا سونے کا مجسمہ موجود تھا جسکا وزن تقریباََ 5.5 ٹن تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت اس مجسمے کی قیمت 250 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ یہ ٹیمپل تو قدیم ہے لیکن سونے کا یہ مجسمہ اس ٹیمپل میں 18 صدی میں رکھا گیا۔ اس ٹیمپل کے دو فلور ہیں اور سیڑھیوں کے ذریعے ہم اس کے ٹاپ فلور پر بھی جا سکتے ہیں۔
یہ ٹیمپل بہت خوبصورت تھا، اسے دیکھنے کے بعد ہم کچھ دیر کے لیے ایک مارکیٹ میں آ گئے اور سٹار باکس کی کافی سے لطف اندوز ہونے لگے۔ جس طرح دنیا کے ہر بڑے شہر میں کوئی نہ کوئی ایک اونچی عمارت ضرور ہوتی ہے جو اس شہر کی پہچان ہوتی ہے اور اس کے علاوہ دنیا بھر سے آئے سیاح اس عمارت سے پورے شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بنکاک میں بھی سٹیٹ ٹاور (State Tower) ایک بہت اونچی بلڈنگ ہے جس میں کئی کمپنیز کے دفاتر اور سیاحوں کے لیے رہائشیں موجود ہیں۔ اس ٹاور کے ٹاپ پر سکائی بار ہے جہاں سے آپ پورے بنکاک کو 360 کے زاویے سے دیکھ سکتے ہیں۔
صدیق بھائی اور میں نے ٹکٹ لیا اور سٹیٹ ٹاور کے ٹاپ پر پہنچ گئے۔ اس وقت رات کے اٹھ بج رہے تھے اورہم اس وقت اس ٹاور کے 83 ویں فلور پر موجود تھے۔ اتنی بلندی سے روشنیوں میں ڈوبا ہوا بنکاک شہر کا نظارہ بھی ایک لائف ٹائم تجربہ تھا۔ میں نے ابھی تک جتنے بھی ممالک کا سفر کیا ہے ان میں سے مجھے تھائی لینڈ سب سے زیادہ لبرل ملک محسوس ہوا۔ بنکاک کی نائٹ لائف یا وہاں کا لبرل ماحول تو اپنی جگہ لیکن تھائی لینڈ میں تاریخی مقامات، ساحل سمندر اور خوبصورت قدرتی نظارے بھی کم نہیں۔ ہم لوگ چار دن تھائی لینڈ میں رہے اور براستہ سری لنکا 26 فروری کو لاہور پہنچ گئے۔

