Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Qabooliyat Wali Hazri

Qabooliyat Wali Hazri

قبولیت والی حاضری

دنیا میں ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں بار بار روضہ رسول ﷺ کی زیارت کرے، وہ گلیاں اور بازار دیکھے جہاں میرے حضور ﷺ کا گزر ہوا، وہ مسجد نبوی دیکھے یہاں صبح و شام صحابہ کرام، آپ ﷺ کی زیارت کے لیے بے چین رہتے۔ برسوں سے میں بھی یہ خواہش میں اپنے دل میں پالتا رہا، پھر میرے نصیب جاگے، وہاں سے میرا بلاوا آیا اور میں مدینے پہنچ گیا۔

مسجد نبوی میں روزہ رسول ﷺ کی سنہری جالیوں کی زیارت کے لئے لوگوں سے پوچھتا رہا۔ کسی نے مجھے بتایا کہ یہ باب الاسلام ہے، یہاں سے تم اندر داخل ہو تو تم ریاض الجنہ اور پھر روزہ رسول ﷺ کی سنہری جالیوں کی زیارت کر سکو گے۔ رمضان کا مہینہ تھا اور باب الاسلام کے سامنے لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ میں دروازے سے اندر داخل ہونے لگا تو وہاں کھڑے ایک شرتے (سپاہی) نے مجھے اندر جانے سے روک دیا۔

میں نے اس شرتے سے اندر جانے کی بہت ضد کی لیکن اس نے مجھے اندر نہ جانے دیا۔ اس وقت میرے دل پر کیا گزری، یہ میں یا میرا اللہ ہی جانتا ہے۔ میں اسی کیفیت میں پیچھے مڑا، تھوڑا آگے چلا اور پھر ایک لمحے کیلئے پلٹ کر اس دروازے کی طرف دیکھا جس سے میں اندر داخل ہو کر روضہ رسول ﷺ کی سنہری جالیوں کی زیارت کرنا چاہتا تھا۔ شاید یہ وہی لمحہ تھا جب عرب میڈیا کا کیمرہ مجھ پر پڑا اور عرب میڈیا کے ذریعے میں پوری اسلامی دنیا میں مشہور ہوگیا۔

عبد القادر بخش جو مری قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے، یہ ساری باتیں بلوچی زبان میں ایک لڑکے کو بتا رہا تھا۔ بابا عبدالقادر بخش بلوچستان کے دور دراز علاقے گوٹھ رحیم کے رہنے والے ہیں۔ بلوچی زبان میں وہ اپنی ساری روداد اینکر کو سنا رہے تھے اور وہ اینکر ان کی باتوں کو اردو میں ترجمہ کرکے بتا رہا تھا۔ میں نے جب اس اینکر کی زبانی بابا جی کی باتیں سنی تو میں سوچ رہا تھا، جب بابا عبدالقادر بخش کو اس شرتے نے باب الاسلام میں داخل ہونے سے روکا ہوگا۔

پتا نہیں؟ باباجی نے کتنے دکھ، کرب اور تڑپ میں آپ ﷺ کے حضور یہ دعا کی ہوگی کہ اے میرے آقا ﷺ، میں ساری زندگی بلوچستان کے دور دراز علاقے میں بھیڑ بکریاں چرا کر تیرے در کی زیارت کے لئے پیسے اکٹھے کرتا رہا۔ پھر اپنا سب کچھ بیچا اور تیرے سوہنے در کی زیارت کی تمنا لیے تیرے شہر میں آیا۔ میں 82 سال کا بوڑھا جسے ٹھیک سے نظر بھی نہیں آتا، لوگوں سے پوچھتا پوچھتا جب تیرے در کے قریب پہنچا تو میرے آقا ﷺ، یہ شرتا (سپاہی) مجھے آگے ہی نہیں آنے دے رہا۔

میں اپنی پریشانی اپنی تکلیف کسے بتاؤں؟ میں کسے بتاؤں کہ میں تیرے در کی زیارت کے لئےصبح و شام دعائیں کرتا تھا۔ میرا تو آپ کے سوا یہاں کوئی بھی نہیں۔ اسی بے قراری میں جب بابا جی کے دل سے یہ التجا نکلی ہوگی اس وقت وہ تڑپ کیا تڑپ ہوگی؟ وہ عشق کیا عشق ہوگا؟ اور اسی دکھ، کرب اور بے قراری کی کیفیت کے منظر کو ایک کیمرہ نے ریکارڈ کیا اور بابا عبدالقادر بخش پوری اسلامی دنیا میں مشہور ہوگیا۔ کسی نے اس حلئے کو صحابہ کرام کے حلئے جیسا کہا تو کسی نے اسے اللہ کا نیک بزرگ، بابا جی کی اس کیفیت اور سادگی کو دیکھ کر ہر عاشق رسول ﷺ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔

ہر انسان کی زندگی میں تین خواہشات ہوتی ہیں عزت، دولت اور شہرت۔ ان تین چیزوں کے حصول کے لئے انسان صحیح اور غلط کا تصور تک بھول جاتا ہے لیکن اللہ جب کسی کو عزت دینا چاہے تو اسے عبدالقادر بخش کی طرح صرف دس سیکنڈ کی ویڈیو کے ذریعے پوری دنیا میں عزت اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو بابا جی کا حلیہ اور ان کا چہرہ دیکھ کر میری آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔

میں نہیں جانتا اس چہرے میں کیا خاص بات تھی؟ لیکن وہ کوئی عام چہرہ نہیں لگ رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ہر بندہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ بابا جی کون اور کہاں کے ہیں؟ یہ معمہ چند دن بعد حل ہوا۔ پتہ چلا بابا جی پاکستان میں بلوچستان کے ایک دور دراز علاقے گوٹھ رحیم کے رہنے والے ہیں۔ بابا جی نے ایک اینکر کو بتایا کہ پچھلے دس پندرہ سال سے میری خواہش تھی کہ میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے گھر کی زیارت کروں۔ میں یہاں رحیم گوٹھ میں بھیڑ بکریاں چراتا تھا، تھوڑے تھوڑے پیسے اکٹھے کرکے اپنا پاسپورٹ بنوایا۔

جب عمرہ پر جانے کے لئے پیسے اکٹھے کر لئے تو 2020ء میں کرونا کی وبا آگئی اور میں عمرہ پر نہ جا سکا، میرا پاسپورٹ بھی ایکسپائر ہوگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری تڑپ بڑھتی گئی، میں نے اپنا پاسپورٹ رینیو کروایا اور اپنی ساری بھیڑ بکریاں بیچ کر دو لاکھ روپے اکٹھے کرکے اپنے گوٹھ کے مالک حاجی رحیم کو دیے، جس نے میرے عمرہ پر جانے کا انتظام کروا دیا۔ بابا جی کے پاس ہی بیٹھے حاجی رحیم نے بتایا کہ عمرہ پر جانے کے لئے ٹریول ایجنسی والے نے دو لاکھ 35 ہزار مانگے، دو لاکھ انہیں دیا اور 35 ہزار ابھی بھی ادھار ہے۔

بابا جی بولے! خدا خدا کرکے میں عمرہ کے لئے روانہ ہوگیا، مکہ پہنچا، عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ اسی دوران میرا تھیلا جس میں میرے کپڑے اور جوتے تھے وہ کہیں گم ہوگیا۔ اب احرام کے سوا میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ دو دن اسی احرام میں گھومتا رہا۔ پھر میرا رابطہ مری قبیلے کے ایک نوجوان سے ہوا، اس نے مجھے اپنے پاس رکھا اور ضرورت کی چیزیں خرید کر دیں۔ بس کے ذریعے میں مکہ سے مدینہ پہنچا اور پھر وہ لمحہ آگیا جس نے مجھے عرب میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں مشہور کر دیا۔ بابا عبدالقادر بخش بولا!

میں جب مدینہ میں قیام کے بعد دوبارہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ آیا تو کچھ لوگ مجھے بڑی محبت سے پیش آئے، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ لوگ مجھ سے اتنا پیار کیوں کر رہے ہیں۔ میں جب واپس پاکستان پہنچا تو ایئرپورٹ پر لوگوں نے مجھے پھولوں کے ہار پہنائے اور بڑی عقیدت سے مجھ سے ہاتھ ملاتے رہے۔ میں تو یہی سمجھ رہا تھا شاید عمرہ کرکے آنے کی وجہ سے لوگ مجھ سے مل رہے ہیں لیکن میں جب بلوچستان آپ نے گوٹھ پہنچا تم مجھے بتایا گیا کے بابا تم تو بہت مشہور ہو گئے ہو۔

وہ ویڈیو جس کی وجہ سے میں پوری دنیا میں مشہور ہوا وہ ویڈیو بھی واپسی پر میں نے اپنی جھونپڑی میں دیکھی۔ جب بابا جی کو یہ بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر آپ کی سادگی اور آپ کا حلیہ دیکھ کر کچھ لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ یہ اللہ کا کوئی نیک بندہ ہے اور اس کا حلیہ صحابہ کرامؓ کے حلیہ مبارک کی طرح ہے جو کتابوں میں بیان کیا گیا ہے تو بابا جی نے اپنے ہاتھ جوڑے اور بڑی عاجزی سے کہا میں بہت گنہگار انسان ہوں، خدارا مجھے ایک عام انسان ہی سمجھیں۔

بابا جی نے بتایا میری اب ایک ہی خواہش ہے کہ میں حج کے لئے جاؤں اور ایک مرتبہ پھر اللہ کے گھر اور اللہ کے حبیب ﷺ کے روضے کی زیارت کروں۔ مجھے یقین ہے کہ اسی سال انشاء اللہ باباجی کے لیے ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے کہ وہ حج پر جا سکیں۔ اس رمضان کے مہینے میں کتنے مالدار، صاحب اقتدار اور کئی حکمرانوں نے عمرہ کی سعادت حاصل کی ہوگی لیکن ان لاکھوں لوگوں میں بابا عبدالقادر بخش ایک ہی تھا جس کو اللہ نے اتنی عزت دی کہ جس کی خواہش ہر کلمہ گو کرتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں وہی پہنچتا ہے جس کا بلاوا وہاں سے آتا ہے لیکن عبدلقادر بخش کا بلاوا کچھ الگ ہی تھا یہ ایسا بلاوا تھا کہ عبدالقادر بخش نے جب مدینے کی زمین پر پاؤں رکھا تو پھر بلوچستان کے دور دراز علاقے میں بھیڑ بکریاں چرانے والے اس چرواہے کی محبت اور تڑپ کے چرچے پوری دنیا نے دیکھے۔ سبحان اللہ! واہ بابا عبدالقادر بخش واہ! تیری سادگی اور عاجزی میں وہ رعب اور دبدبہ تھا جو بڑے بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں میں نظر نہیں آتا۔

بے شک عزت اور ذلت دینے والی ذات اللہ کی ہے، وہ چاہے تو کھجور کے تنوں سے بنی ہوئی جھونپڑی میں رہنے والے ایک بیاسی سالہ بوڑھے چرواہے کو عزت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دے اور اگر چاہے تو برسوں اقتدار کے ایوانوں میں رہنے والوں کی عزت لوگوں کے دلوں سے ہمیشہ کے لئے ختم کر دے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے رب کریم! ہم پر بھی اپنا رحم فرما اور ہمیں بھی اس بلوچی بابا کی طرح اپنے حبیب ﷺ کے در کی حاضری نصیب فرما، قبولیت والی حاضری۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza