Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Northampton Main Guzra Aik Din

Northampton Main Guzra Aik Din

نارتھ ایمٹن، انگلینڈ میں گزرا ایک دن

انگلینڈ میں یہ میرا پہلا دن تھا، میں لندن سے تقریباََ 97 کلومیٹر دور نارتھ ایمٹن برکس ورتھ کنٹری پارک میں ذیشان رانجھا اور علی عبداللہ گوندل کے ساتھ گھوم رہا تھا۔ علی عبداللہ ہمارے علاقے کی ایک نامور شخصیت فیض احمد گوندل ایڈوکیٹ (جو کہ اجووال سے تعلق رکھتے تھے) اور چند برس قبل گلگت حادثہ میں فوت ہو گئے تھے ان کے بیٹے ہیں اور آج کل انگلینڈ میں سیٹل ہیں۔ علی عبداللہ نے بتایا کہ نارتھ ایمٹن انگلینڈ کا سب سے بڑا ٹاؤن ہے جس کی آبادی تقریباََ پونے تین لاکھ ہے۔ یہ علاقہ فارمولا ون ریس کے ٹریک کی وجہ سے بھی مشہور ہے اور بچوں کی گیم نیڈ فار سپیڈ (Need for speed) کا ایک مشہور ٹریک "سلور اسٹون" بھی نارتھ ایمٹن شائر میں ہے۔ یہ پارک واقعی دیکھنے کے قابل تھا۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اور اس سبزے کے درمیان مختلف رنگوں کے الگ الگ ٹریکس بنے تھے۔ اس پارک میں بارش کے پانی سے بنی ایک انتہائی خوبصورت بہت بڑی جھیل بھی موجود تھی جس کا گہرا نیلا شفاف پانی، صاف ستھری فضا اور نیلا آسمان اس منظر کو اور بھی خوبصورت بنا رہا تھا۔

یہ 10 اپریل کا دن تھا اور انگلینڈ میں بہار کا موسم شروع ہو چکا تھا، درختوں پر کونپلیں کھل رہی تھیں اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی لیکن اس کے باوجود ٹھنڈ ابھی باقی تھی۔ اس پارک کے ایک ٹریک پر چلتے ہوئے ہم نے ایک بوڑھے گورے کپل کو دیکھا جو خوشگوار موڈ میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا میں آپ سے آپ کی عمر پوچھ سکتا ہوں؟ بوڑھے مرد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا میں 88 سال کا ہوں اور میری بیوی 82 سال کی ہے اور اگلے مہینے کی 10 تاریخ کو ہماری شادی کو 60 سال ہو جائیں گے۔ اس بات پر بوڑھی گوری نے قہقہا لگایا اور کہا کہ اور پھر مجھے اسی بہانے بہت سے گولڈن رنگز ملیں گے۔

اس کی بات پر مسکراتے ہوئے میں نے کہا کہ لگتا نہیں کہ آپ کی عمر اتنی زیادہ ہے۔ اس پر دونوں نے تھینک یو کہا۔ میں نے پوچھا آپ کی اس خوشگوار زندگی کا راز کیا ہے؟ تو وہ بولے سادہ زندگی۔ بزرگ گورے نے بتایا ہماری زندگی کا زیادہ تر حصہ اسی علاقہ میں گزرا ہے اور ہم نے اپنی زندگی بے حد مطمئن ہیں، کبھی کوئی غیر ضروری خواہشات نہیں رکھیں، باقاعدہ ورزش، سادہ کھانا اور ایسی خوبصورت جگہوں پر آ کر گپ شپ کرنا ہمارا معمول ہے۔ ہماری ان لوگوں سے یہ ہلکی پھلکی گپ شپ ہوئی اور ہم آگے چل دیے۔

اسی ٹریک پر میں نے لکڑی کے دو تین خوبصورت بینچز دیکھے جن پر کسی کے نام کندہ تھے۔ علی عبداللہ نے بتایا کہ اس بوڑھے کپل کی طرح جو اکثر یہاں آ کر بیٹھتے اور زندگی کے خوبصورت پل گزارتے تھے، وہ آج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کے گھر والوں نے اب ان کی یاد میں یہ لکڑی کے بینچ بنوا کر اس جگہ رکھ دیے ہیں اور ان پر ان کے نام کندہ کروا دیے ہیں۔ مجھے یہ روایت بہت اچھی لگی کیونکہ ایک تو اس صورت میں ان مرنے والوں کا نام زندہ رہے گا اور دوسرا کوئی شخص تھک ہار کر جب ان بینچز پر بیٹھتا ہے تو یہ اس اولاد کے لیے صدقہ جاریہ بھی ہے، برکس ورتھ کنٹری پارک میں ایسے بہت سارے پنچز تھے۔

گزشتہ روز 9 اپریل کو میں لاہور سے براستہ قطر لندن پہنچا تھا۔ دوہا ایئرپورٹ پر میرا پانچ گھنٹے کا قیام تھا۔ میں نے وہاں کافی لی تو پتہ چلا کہ میرا کریڈٹ کارڈ ایکٹو نہیں ہے، بھلا ہو عطا کیانی کا جن کی مدد سے میں نے اسی وقت کارڈ کو ایکٹو کیا اور میرے لیے آسانی پیدا ہوئی۔ دوحہ سے لندن کی فلائٹ تقریباََ سات گھنٹے کی تھی، میں انگلینڈ چونکہ پہلی بار جا رہا تھا اس لیے میرے ذہن میں بے شمار سوالات تھے کہ پتہ نہیں ایمیگریشن آفیسرز مجھ سے کیا کیا سوالات پوچھے گا۔

بدقسمتی سے ہم پاکستانیوں کو کسی ترقی یافتہ ملک کا ویزہ مشکل سے ملتا ہے جس کی بہت بڑی وجہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کا غیر قانونی طریقے سے ایسے ملکوں میں جانا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے جب کوئی لیگل طریقے سے بھی ان ممالک کا سفر کر رہا ہو تو اس کی ذہن میں بھی بے شمار سوالات جنم لیتے ہیں۔ خیر لندن ایئرپورٹ پر میں جو نہی امیگریشن کے لیے آگے بڑھا تو وہاں ایک خاتون آفیسر نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور پوچھا کہ آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟ میں نے بتایا لندن کے وزٹ کے لیے۔ اس نے پوچھا کہ آپ لندن میں کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟ میں نے لندن کی چند مشہور جگہوں کے نام بولے جیسے لندن آئی، برٹش میوزیم، بگ بین اور لانگ اینڈ ٹال برج۔

آفیسر لڑکی نے مسکراتے ہوئے سوالیہ نظروں سے پوچھا ٹال بریج؟ میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور ہنستے ہوئے کہا دراصل میرے کہنے کا مطلب ہے لندن برج، اس نے بھی خوشگوار موڈ میں اوکے کہا۔ اس نے مزید پوچھا کہ آپ یہاں کتنے دن اور کہاں رہیں گے؟ میں نے اسے اپنے ہوٹل کی بکنگ دکھائی جہاں مجھے ٹھہرنا تھا اور ساتھ ہی واپسی کا ٹکٹ۔ چونکہ میں نے 17 اپریل کو لندن سے ترکی جانا تھا تو اس نے ریٹرن ٹکٹ دیکھ کر مجھے کہا کہ آپ یہاں سے ترکی جائیں گے؟ میں نے کہا جی چار دنوں کے لیے۔ اس نے مسکراتے ہوئے پاسپورٹ پر مہر لگائی اور کہا "انجوائے دی لندن"۔

میں نے اپنا پاسپورٹ لیا اور اپنا بیگ لینے کے لیے کنویئر بیلٹ کی طرف آ گیا۔ ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو ذیشان رانجھا میرا انتظار کر رہا تھا۔ ذیشان میرا سٹوڈنٹ بھی ہے، ہمسایہ بھی اور چھوٹے بھائیوں کی طرح بھی۔ لندن آنے سے پہلے ذیشان سے میری بات ہوئی کہ میں آٹھ دنوں کے لیے انگلینڈ آ رہا ہوں تو اس نے کہا سر خوش آمدید، میں ایئرپورٹ پر آپ کو لینے آ جاؤں گا لہذا وعدہ کے مطابق ذیشان اپنی گاڑی لے کر اپنے دوست تنویر کے ساتھ ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ جونہی ہم گاڑی میں بیٹھے تو میں نے ذیشان کو بتایا کہ دوحہ ایئرپورٹ پر مجھے ایک لڑکا ملا جو لندن دوسری بار آ رہا تھا، وہ یہاں پہلے دو سال کام کرتا رہا ہے اور اب اپنا ورک ویزا تبدیل کرکے یہاں آ رہا تھا۔ میری اس کے ساتھ گپ شپ ہوئی تو وہ بتانے لگا کہ میں جب پہلی بار یہاں آیا تو لندن ایئرپورٹ پر امیگریشن آفیسر نے مجھے ایک گھنٹہ بٹھائے رکھا اور بہت سے سوالات پوچھے خیر میں جب لندن پہنچ گیا اور کچھ عرصہ بعد کام پر بھی لگ گیا تو ایک دن میرے باس نے کہا کہ بیٹا لندن میں تین لوگوں کو کبھی نہ بھولنا ایک وہ جو آپ کو پہلی بار ایئرپورٹ پر لینے آیا تھا۔ دوسرا وہ جس نے آپ کو رہنے کے لیے جگہ دی تھی اور تیسرا جس نے آپ کے لیے سب سے پہلے نوکری یا کام کا بندوبست کیا تھا۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا کے ذیشان میں تمہیں کبھی نہیں بھولوں گا کیونکہ تم مجھے پہلی بار یہاں لینے آئے ہو، باقی میں نے یہاں رہنا اور کام کرنا تو ویسے نہیں ہے۔ تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا مائی پلیزر سر۔ خیر اس ہوٹل پر جانے سے پہلے راستے میں ذیشان نے مجھے زبردست کھانا کھلایا اور رات تقریباََ ایک بجے لندن کے علاقے بیٹر سی میں مجھے اس ہوٹل پر پہنچا دیا جہاں میں نے بکنگ کرا رکھی تھی۔

لندن آنے سے پہلے میں میں نے بیرون ملک کے جتنے بھی اسفار کیے وہ گروپس کے ساتھ تھے لیکن یہ میرا پہلا اکیلے انٹرنیشنل سفر تھا اس لیے میرے ذہن میں کچھ خدشات بھی تھے کہ معلوم نہیں مجھے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ مگر اگلے آٹھ دنوں میں نہ تو میں کسی ایک دن اکیلا رہا نہ ہی کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ گوروں کے دیس میں وہ آٹھ دن زندگی کے یادگار ترین دن بن گئے۔ ہوٹل پر چھوڑتے ہوئے ذیشان نے مجھے کہا کے سر میرے کچھ دوستوں نے کل نارتھ ایمٹن کے ایک پارک میں باربی کیو کا اہتمام کر رکھا ہے لہذا آپ صبح نو بجے تیار رہیے گا ہم لندن دیکھنے سے پہلے نارتھ ایمٹن دیکھیں گے۔ میں نے ہوٹل میں چیک ان کیا اور بیٹر سی کے اس چھوٹے سے ہوٹل میں بہت سکون سے رات گزاری۔ یوں 10 اپریل کی صبح نو بجے میں ذیشان کے دو مزید دوستوں کے ساتھ لندن سے دو گھنٹے کی مسافت پر نارتھ ایمٹن پہنچا اور وہیں میری ملاقات علی عبداللہ گوندل اور اس کے مزید دوستوں سے ہوئی۔

ذیشان کے ایک دوست رانا عدیل جو چند دن پہلے ہی عمرہ کرکے لندن آئے تھے، دراصل انہوں نے ہی یہاں سب دوستوں کے لیے باربی کیو کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ہم نے وہ سارا دن نارتھ ایمٹن کے خوبصورت پارک میں گزارا۔ ان تمام دوستوں میں زیادہ تر یہاں اسٹوڈنٹ ویزا پر آئے اور اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد وہ اب مختلف شعبوں میں جاب کر رہے ہیں۔ انگلینڈ کی زندگی بہت ہی مصروف ہے، وہاں کسی کے لیے کیا؟ اپنے لیے وقت نکالنا بھی مشکل ہے لیکن مجھے اچھا لگا کہ اس مصروف زندگی میں بھی یہ دوست اپنے لیے وقت نکالتے ہیں اور کبھی کبھی ایسے پروگرام بناتے رہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے ملتے رہیں۔

زندگی گزارنے کا میرا فلسفہ بھی یہی ہے کہ اگر آپ اپنے کام کے ساتھ تفریح کے لیے وقت نہیں نکالتے تو پھر آپ صرف کوہلو کے بیل ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ انگلینڈ میں وہ پہلا دن ذیشان رانجھا، عبداللہ گوندل اور ان کے دوستوں کے ساتھ یادگار بن گیا اور ہم لوگ رات 10 بجے واپس لندن پہنچ گئے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari