Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. London Tower Bridge Aur British Museum

London Tower Bridge Aur British Museum

لندن ٹاور بریج اور برٹش میوزیم

جو نہی میری نظر ٹاور بریج پر پڑی تو مجھے اس امیگریشن آفیسر لڑکی کی بات یاد آگئی جس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ آپ لندن میں کیا دیکھنے آئے ہیں؟ میں نے لندن آئی، بگ بین اور ٹاور برج کہنے کے بجائے غلطی سے لانگ بریج کہہ دیا تھا اور میری اس بات پر اس نے قہقہ لگایا تھا اور کہا تھا یو مین ٹاور بریج؟ اور میں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا "یس ٹاور بریج"۔ ذیشان اور میں لندن آئی دیکھنے کے بعد بس کے ذریعے یہاں پہنچے۔ لندن میں کوئی شخص آئے اور یہاں نہ آئے یہ نہیں ہو سکتا۔ ٹاور بریج لندن کی چند مشہور جگہوں میں سے ایک ہے۔

یہ 1886 سے لے کر 1894 کے درمیان آٹھ سالوں میں تعمیر کیا گیا۔ انیسویں صدی میں جب لندن کی آبادی زیادہ ہوگئی تو دریائے تھیمز کے مشرقی حصے کہ لوگوں کی مشکلات میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب انہیں روز مرہ زندگی گزارنے اور تجارتی امور کے لیے دریائے تھیمز کو مشکل سے کراس کرنا پڑھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دریائے تھیمز پر ایک بڑے پل کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چونکہ دریائے تھیمز میں ہر روز بڑے بڑے بحری جہازوں کی آمد و رفت تھی اس لیے اس دریا پر کوئی ایسا پل بنانے کی ضرورت تھی جس کی وجہ سے ان جہازوں کے گزرنے میں بھی کوئی دقت نہ ہوتی۔

اس ضرورت کے پیش نظر اس وقت کی حکومت نے 50 سے زائد ڈیزائن تیار کروائے لیکن آخر میں Horace Jones کے بنائے ڈیزائن کو چن لیا گیا اور دریائے تھیمز پر ٹاور بریج کا کام 1884ء میں شروع ہوا۔ اس بریج کی تکمیل پر 30 جون 1894ء کو اس کا باقاعدہ افتتاح پرنس آف ویلز (Edward) نے کیا۔ اس پل کی لمبائی 940 فٹ ہے جبکہ اس کے دو ایک ہی ڈیزائن کے بنے ٹاورز کی اونچائی 213 فٹ یا 65 میٹر ہے۔ ان دو ٹاورز کے درمیان پل کو دوحصوں میں تقسیم بھی کیا جا سکتا ہے اور دن میں اس پل کو تین بار کھولا جاتا ہے تاکہ بڑے بحری جہازوں کو یہاں آسانی سے گزارا جا سکے۔

اس پل پر بنائے گئے دو ٹاورز کے ٹاپ پر جانے کے لیے سیڑھیاں بھی موجود ہیں جس کے ٹاپ سے دریائے تھیمز اور لندن کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم تھوڑی دیر وہاں دریائے تھیمز کے کنارے بیٹھے اور اس دریا میں سیاحوں کی کشتیوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے رہے۔ پھر دریا کے مشرقی کنارے پر پیدل چلتے ہوئے پل کی طرف آگئے۔ دور سے چھوٹا سا دکھائی دینے والا یہ پل درحقیقت بہت بڑا ہے۔ ہم 40-50 سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ٹاور بریج پر آ گئے جس پر آنے اور جانے کے لیے دو سڑکیں بنی ہیں۔ یہ پل لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، اس پل پر ہر روز ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔

ہم چلتے ہوئے پل کے بالکل درمیان اس جگہ پر آگئے جہاں پل کو دو حصوں میں الگ کیا جاتا ہے۔ ہم نے اس پل کو پیدل کراس کیا اور دوسری جانب اس قلعے کے قریب آگئے جو ماضی میں ان فوجیوں کے لیے بنایا گیا تھا جو اس پل کی حفاظت پر مامور تھے۔ اس قلعے کے سامنے دریائے تھیمز کے کنارے جگہ جگہ بینچز تھے جہاں سیاح بیٹھ کر دریا کا نظارہ کرتے ہیں۔ یہ لندن بریج واقعی حیران کن اور شاندار پل ہے جو لندن کی پہچان بھی ہے۔ بریج ٹاور کو دیکھنے کے بعد ہم قریب ہی ایک بس سٹاپ پر آگئے اور بس میں بیٹھ کر برٹش میوزیم کی طرف چل دیے۔

برٹش ہسٹری میوزیم کے مین گیٹ پر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ میوزیم کے اندر جانے کے لیے ہمیں آن لائن ٹکٹ درکار ہے۔ لہذا ہم نے وہیں کھڑے کھڑے آن لائن ٹکٹس بک کیے اور میوزیم کے مین گیٹ سے اندر داخل ہو گئے۔ لندن کا یہ میوزیم اتنا بڑا ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت بھی کم ہے اور اس میوزیم میں دنیا کی اولڈ سولائزیشن کو مختلف گیلریز میں تقسیم کیا گیا ہے، ہم نے میوزیم کا سرسری وزٹ کیا۔ جونہی میوزیم کا لفظ ہمارے سامنے آتا ہے تو اسی وقت ہمارے ذہنوں میں تاریخی نوادرات اور پرانی اشیاء آجاتی ہیں اور مصر کی تاریخ سے بڑھ کر شاید ہی کسی ملک کی تاریخ پرانی اور دلچسپ ہو۔

اس لیے ہم سب سے پہلے مصری نوادرات دیکھنے کے لیے مصر کی گیلری میں آگئے جو زیادہ تر سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھی۔ ویسے تو اس گیلری میں بے شمار پتھر کے بنے ہوئے فرعونوں کے مجسمے، برتن، جنگی آلات اور دیگر اشیاء موجود تھیں لیکن لوگوں کی زیادہ دلچسپی ان ہنوط شدہ لاشوں میں تھی جو اس وقت کے چھوٹے بڑے فرعونوں کی تھیں۔ مصری تہذیب 3200 قبل مسیح سے بھی پرانی ہے لیکن اس کے باوجود مصر کے لوگ اپنے دور کے ترقی یافتہ لوگ تھے۔ 2019ء میں جب میں مصر گیا تو وہاں مجھے معلوم ہوا کہ مصریوں نے اہرام مصر بنانے سے پہلے لکھنے کے لیے پیپر ایجاد کر لیا تھا جو کہ پاپائرس کے پودے سے بنایا جاتا تھا، اس پیپر کو ایک خاص طریقے سے بنایا جاتا تھا۔

میں نے اس وزٹ کے دوران مصر میں ایک کاغذ بنانے والی فیکٹری کا وزٹ بھی کیا تھا جہاں پاپائرس سے کاغذ بنانے کا طریقہ بھی بتایا گیا۔ قائرہ میوزیم کو دنیا کا قدیم ترین اور قیمتی نوادرات کو محفوظ کرنے کے اعتبار سے بڑا میوزیم بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس میوزیم میں میں نے را مسس دوم یعنی حضرت موسیؑ کے زمانے کے فرعون کی ہنود شدہ لاش بھی دیکھی تھی جو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی آج قائرہ کے اس میوزیم میں عبرت کا نشان بنی ہوئی ہے۔

وہیں مجھے یہ جاننے کا موقع بھی ملا کہ مصری کس طرح لاشوں کو ہنوط کرتے تھے تاکہ صدیوں تک ان فرعونوں کی لاشیں محفوظ رہیں۔ مصریوں نے ایسے مصالحے بھی بنا لیے تھے جن کی وجہ سے ہنوط شدہ لاشیں خراب نہیں ہوتی تھی۔ چونکہ مصریوں کا عقیدہ تھا کہ یہ فرعون مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے اس لیے یہ ان کی لاشوں کو ہنوط کرکے محفوظ کر لیتے تھے۔ ایسی ہی چند ہنوط شدہ لاشیں برٹش میوزیم میں بھی موجود تھیں جو یقیناََ انگریزوں کو ماضی میں مصری علاقے فتح کرنے کے بعد ہاتھ لگی ہوں گی۔

ذیادہ تر سیاحوں کی دلچسپی بھی ان ہنوط شدہ لاشوں کو دیکھنے میں ہی تھیں، ان میں سے کچھ لاشیں تو حیران کن حد تک صحیح حالت میں تھیں۔ ہم نے مصری تہذیب کے علاوہ برٹش میوزیم میں یونانی گیلری کا بھی وزٹ کیا، مجسمہ سازی میں جو کمال یونانیوں کو حاصل تھا وہ کسی اور قوم کو نہ تھا۔ یونانیوں کے ہاتھوں تراشے گئے چند مجسمے اس میوزیم میں موجود تھے جن کو دیکھ کر انسان حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔ جسم کے ایک ایک حصے کو کمال مہارت سے تراشا گیا تھا جسے دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ یہ مجسمہ نہیں بالکل حقیقی انسان ہے کہ ان پر ایک ایک مسل اور وینز تک نظر آرہی تھیں۔

ہمارے پاس چونکہ وقت کم تھا اس لیے ہم نے تیزی سے میوزیم کی کچھ اور گیلریز کا وزٹ کیا اور تھک ہار کر میوزیم کے باہر سیڑھیوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ میں چونکہ چند دنوں کے لیے ہی انگلینڈ آیا تھا اس لیے میں کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مشہور جگہوں کو دیکھنا چاہتا تھا۔ ذیشان نے کہا کہ چلیں سر اب ہم الفرڈ چلتے ہیں جہاں میری رہائش ہے۔ لہذا ہم میوزیم دیکھنے کے بعد بس کے ذریعے الفرڈ پہنچ گئے۔ کچھ دیر ہم نے ذیشان کی رہائش گاہ پر ہی آرام کیا، وہاں سے ذیشان کے دوست قدیر کو ساتھ لیا اور شام کا کھانا کھانے کے لیے الفرڈ اسٹریٹ آگئے۔

ایلفرڈ اسٹریٹ کے قریب چونکہ زیادہ تر پاکستانی رہائش پذیر ہیں اس لیے وہاں مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ہم لاہور کہ کسی علاقہ میں گھوم رہے ہیں۔ قدیر نے مجھے بتایا کہ 14 اگست یا کسی بھی پاکستانی قومی و مذہبی تہوار پر یہ ایلفرڈ اسٹریٹ پاکستانیوں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہے۔ کسی بھی تہوار پر لندن میں پاکستانیوں کی جو بھی ایکٹیوٹیز نظر آتی ہیں وہ دراصل یہیں ایلفرڈ اسٹریٹ میں ہوتی ہیں۔ الفرڈ اسٹریٹ پر چلتے ہوئے مجھے سامنے ایک بہت بڑا پلازہ دکھائی دیا جس کے بارے میں قدیر نے مجھے بتایا کہ یہ عمارت کچھ عرصہ پہلے تک میاں فیملی کی ملکیت تھی لیکن اب یہ پلازہ انہوں نے بیچ دیا ہے۔

ایلفرڈ اسٹریٹ میں جگہ جگہ پاکستانی ریسٹورنٹس تھے، ہم نے وہاں ایک شنواری ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا۔ اس ریسٹورنٹ پر اس قدر پاکستانی اور انڈینز موجود تھے کہ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ لندن کا علاقہ نہیں ہے۔ خیر کھانا کھانے کے بعد ذیشان ہمیں انڈیا کی ایک مشہور چائے کی فرنچائز "چائے والا" پر لے آیا جہاں سے ہم نے کڑک چائے بھی۔ اپنی نیلی آنکھوں سے مشہور ہونے والے ایک پاکستانی چائے والے ارشد خان کی چائے کی شاپس بھی الفرڈ سٹریٹ میں دکھائی دیں۔ ایلفرڈ اسٹریٹ میں گھومتے ہوئے میری ذیشان اور قدیر سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، جن میں خاص طور پر ان نوجوان طالب علموں کے بارے میں تھی جو اسٹوڈنٹ ویزا پر یہاں انگلینڈ آتے ہیں اور ان کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے بڑی تفصیل سے مجھے بتایا کہ اگر پاکستانی طالب علم یہاں انگلینڈ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنا ہی چاہتے ہیں تو پھر انہیں ایف اے، ایف ایس سی یا گریجویشن، کون سی ڈگری کے بعد یہاں آنا چاہیے اور اگر کسی نے ورک پرمٹ پر یہاں آنا ہے تو وہ کن کن شعبوں میں کام کریں تو یہاں زیادہ سکوپ ہے۔ لندن میں گزرا دوسرا دن بہت ہی مصروف اور شاندار تھا جس میں مجھے سینٹرل لندن کے علاوہ الفرڈ اسٹریٹ دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ رات 11 بجے ذیشان نے مجھے اپنی گاڑی کے ذریعے الفرڈ سے لندن کے علاقے بیٹر سی میں ڈراپ کیا جہاں میں نے قیام کے لیے ہوٹل کی بکنگ کرا رکھی تھی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan