Khushgawar Aur Kamyab Zindagi Ke Chand Asool
خوشگوار اور کامیاب زندگی کے چند اصول

ایک شخص نے پنڈت سے کہا کہ میرے گھر میں بدروحوں کا سایہ ہے، آپ میرے گھر چلیں وہاں دعا کریں تاکہ مجھے سکون مل سکے۔ پنڈت اس شخص کے ساتھ اس کے گھر چل پڑا، اپنے گھر سے تھوڑا سا دور اس شخص نے گاڑی روکی اور پنڈت سے کہا کہ جناب یہاں ہمیں 25 منٹ رکنا پڑے گا، پنڈت نے وجہ پوچھی تو وہ شخص بولا دراصل یہاں سے چند میٹر دور ایک بیمار بڑھیا کا گھر ہے اور اس وقت روزانہ ہسپتال سے بڑھیا کے چیک آپ کے لیے گاڑی آتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ گاڑی آئی ہوئی ہو اور ہم اس گھر کے قریب سے گزریں اور وہ گاڑی کے شور کی وجہ سے ڈسٹرب ہو۔ اس لیے ہم یہاں کچھ دیر انتظار کر لیتے ہیں۔
30 منٹ گزر کے بعد وہ شخص وہاں سے تھوڑا آگے چلا تو اس نے دیکھا کہ ایک بچے نے بھاگتے ہوئے سڑک کراس کی، اس نے اپنی گاڑی پھر روک دی۔ پنڈت بولا کہ وہ بچہ تو گزر گیا ہے اب آپ چلو! وہ شخص بولا کہ پنڈت صاحب جب بھی کوئی بچہ یوں دوڑ کر سڑک کراس کرتا ہے تو یقیناََ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بچہ ضرور ہوتا ہے اس لیے ہمیں یہاں تھوڑی دیر رک جانا چاہیے۔ ایسا ہی ہوا چند لمحوں بعد ایک اور بچے نے بھاگتے ہوئے سڑک کراس کی۔ جب وہ بچے گزر چکے تو اس شخص نے گاڑی چلانا شروع کر دی اپنے گھر کے گیٹ کے سامنے رکا، ہارن دیا اور گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔
اب پھر پنڈت بولا کہ چلیں؟ تو وہ شخص کہنے لگا جناب! ہم پانچ منٹ بعد گھر کے اندر داخل ہوں گے۔ پنڈت نے حیرت سے پوچھا کیوں؟ تو وہ شخص بولا دراصل آج کل ہمارے گھر کے صحن میں لگے آم کے درخت پر بہت سے آم لگے ہیں، جس کی وجہ سے محلے کے بچے چوری آم توڑنے آ جاتے ہیں۔ اگر ہم اچانک اندر داخل ہوئے تو وہ بچے جلدی میں آم کے درخت سے چھلانگ لگائیں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے۔ لہذا ہمیں کچھ دیر یہاں انتظار کرنا چاہیے۔ پنڈت نے اس شخص کی یہ بات سنی، مسکرایا اور بولا! آپ مجھے واپس چھوڑ آئیں۔
اس شخص نے حیرانگی سے پوچھا کیوں؟ پنڈت بولا جس شخص کی روح اتنی پاکیزہ اور شفاف ہو کہ وہ ہر کسی کا چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی خیال رکھتا ہو تو اس کے گھر میں بد روحیں کیسے ہو سکتی ہیں۔ یہ واقعہ ہمیں جاوید چوہدری صاحب نے اس وقت سنایا جب ہم پانچ جولائی کو مارکو پولو ہوٹل مری میں لنچ کے بعد چائے کا انتظار کر رہے تھے اور وہ ہمیں غیر رسمی انداز میں بتا رہے تھے کہ زندگی کو کیسے خوشگوار اور کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔
جاوید چوی صاحب سال میں ایک دو مرتبہ مری میں اپنی رہائش گاہ پر دو روزہ تربیتی سیشن رکھتے ہیں، مذکورہ بالا موضوع پر سیشن لینے کے لیے ہم 30 کے قریب لوگ چوہدری صاحب کے ساتھ اسلام آباد سے مری آئے تھے۔ چودری صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہماری زندگی میں سب سے اہم چیز ہماری صحت ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم میں سے اکثر لوگ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے اور دن رات پیسہ کمانے میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے کمائے ہوئے پیسے سے بھی بہت کم لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دوسرا مائنڈ کو آج کے دور میں کس طرح مثبت رکھا جا سکتا ہے اس پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مائیکل ایگنور کی مائنڈ اور برین کے بارے میں جدید سرچ کے بارے میں بتایا۔
مائیکل ایگنور کے مطابق اگر کسی انسان کے سر سے دماغ کو نکال بھی لیا جائے تو بھی جسم بات کرنے پر مختلف حرکات و سکنات کرتا رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں مائنڈ نہیں بلکہ ہمارے جسم کے باہر سے کوئی ایسی چیز ہے جو ہمیں کنٹرول کر کر رہی ہے لیکن وہ کیا ہے اور کہاں ہے؟ ہم یہ نہیں جانتے۔ چوہدری صاحب کا کہنا تھا کہ خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے سپرٹ کا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ جب تک روح پاکیزہ نہیں ہوگی ہم اس وقت تک مثبت کام نہیں کر سکتے۔
سپرٹ پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے بے شمار ارب پتی بھی چیرٹی کا کام اس لیے کرتے ہیں انہیں ذہنی سکون ملے اور روح پاکیزہ ہو سکے، اس لیے کہ دوسروں کے لیے فلاح کا کام کرنے سے ہی دل کو سکون ملتا ہے۔ کچھ دیر وہیں مارکو پولو ہوٹل میں گپ شپ کے بعد ہم شام پانچ بجے کے قریب مری میں جاوید چودھری صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ چودھری صاحب نے اپنا یہ گھر بڑی ہی محبت سے صندل کی لکڑی سے بنوایا ہے جو انہوں نے کینیڈا سے امپورٹ کی، میں اس گھر میں تیسری بار آیا۔ ہم نے وہاں تھوڑی دیر ریسٹ کیا اور پھر رات کا کھانا کھانے کے لیے مال روڈ پر آ گئے۔
چوہدری صاحب کی ٹیم نے وہاں ایک شاندار ریسٹورنٹ میں کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ جونہی ہم اس ریسٹورنٹ پر پہنچے تو مری میں ٹریفک کے سینیئر آفیسر نے چودھری صاحب کو خوش آمدید کہا اور ڈنر ہمارے ساتھ اکٹھے کیا۔ گپ شپ کے دوران اس آفیسر نے بتایا کہ صرف آج نو محرم کے دن مری میں تقریباََ 60 ہزار گاڑیاں داخل ہوئی ہیں۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ صرف ہفتہ کے دن مری میں تقریباََ دو، اڑھائی لاکھ سیاح آئے۔ یہی وجہ تھی کہ مال روڈ پر اس رات تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ ڈنر کے دوران ہی مری روڈ پر واقع مرکزی چرچ کے پادری بھی چوہدری صاحب سے ملنے آگئے۔ پادری کی دعوت پر ہمارا سارا گروپ چوہدری صاحب کے ساتھ چرچ دیکھنے آ گیا۔
یہ چرچ نو آبادیاتی دور میں 1857ء میں انگریز فوج نے اپنی اور اپنی فیملیز کی عبادت کے لیے نے بنایا تھا۔ اس چرچ کے پادری نے چرچ کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی بنیاد 1857ء میں رکھی گئی اور یہ 1875ء میں یہ مکمل ہوا۔ نو آبادیاتی دور میں مری میں یہ عیسائیوں کا مرکزی چرچ تھا۔ 1997ء میں ملکہ الزبتھ دوم نے بھی اس چرچ کا وزٹ کیا اور سنہرے رنگ کی دو گدیاں جسے وہ خود بگی پر استعمال کرتی تھی، وہ اس چرچ کو گفٹ کر دیں اور بعد میں ان گدیوں کو لوگ سونے کی اینٹیں سمجھتے رہے۔ اس چرچ کہ پادری نے چرچ میں اپنی عبادات، عیدین اور مذہبی تہواروں کے بارے میں سب کو تفصیل سے بتایا۔
اس تاریخی چرچ کو دیکھنے کے بعد جونہی ہم چرچ سے نکل کر مال روڈ پر آئے تو بارش شروع ہوگئی۔ ہم برسات میں بھیگتے ہوئے پارکنگ ایریا میں پہنچے جہاں ہماری گاڑی کھڑی تھی۔ 35 منٹ کے سفر کے بعد ہم لوگ چودھری صاحب کے گھر آگئے جہاں ہم نے رات قیام کیا۔ دوسرے دن ناشتے کے بعد چوہدری صاحب نے غیر رسمی انداز میں ہی ہم تمام دوستوں کو لیکچر دیا جس میں انہوں نے کامیاب زندگی گزارنے کے اصول بتائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے لہذا خوشی بڑھانے کے لیے سب سے پہلا کام باقاعدگی سے روزانہ ورزش کرنا ہے۔ کیونکہ ورزش کرنے سے انسان کی باڈی میں ٹوپامین ہارمونز بڑھ جاتے ہے جو کہ خوشی کا باعث بنتے ہیں۔
ویسے تو بہت سے انسان یہ ڈوپامین ہارمونز منفی کاموں سے بھی حاصل کرتے ہیں لیکن انسان کو حقیقی معنوں میں خوش رہنے کے لیے ہمیشہ مثبت کام کرنے چاہیے۔ لہذا ہر شخص کو ہفتے میں کم از کم پانچ دن باقاعدگی سے ایکسرسائز کرنی چاہیے اور دو دن واک۔ کامیاب زندگی گزارنے کے لیے دوسرا کام روزانہ کتابیں پڑھنا ہے۔ چوہدری صاحب کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو روزانہ کم از کم کسی بھی کتاب کے دس صفحات ضرور پڑھنے چاہیے۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ اللہ تعالی نے اپنا پیغام بھی انسانوں کو کتاب کے ذریعے پہنچایا۔
تیسری چیز کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اپنی زندگی سے غیر ضروری چیزوں کو نکال دیں مثلاََ کبھی مذہبی اور سیاسی بحث میں نہ پڑیں جس کا آپ کو کوئی فائدہ نہ ہو۔ اللہ تعالی نے جس مقصد کے لیے آپ کو دنیا میں بھیجا ہے وہ تلاش کریں اور پھر اپنے آپ کو اس مقصد پر لگا دیں۔ چوتھی چیز، زندگی میں آپ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کی کوئی نہ کوئی لمٹ ضرور طے کر لیں۔ آپ جب تک اپنی زندگی میں کسی بھی چیز کے حصول کی ایک حد مقرر نہیں کرتے آپ ہمیشہ بے مقصد اور اضطراب میں زندگی گزاریں گے۔ تعلیم کتنی حاصل کرنی ہے؟ پیسہ کتنا کمانا ہے؟ کتنے گھر بنانے ہیں؟ کس حد تک آسائشیں حاصل کرنی ہیں ان سب چیزوں کی حد مقرر کر لیں ورنہ ارب پتی ہو کر بھی آپ کا دل مسرور نہیں ہوگا اور آپ مزید پیسے کمانے کی ہوس میں مبتلا رہیں گے۔
پانچویں اور آخری بات کہ آپ اپنی روح کی خوشی کے لیے ہر روز کم از کم کوئی ایک نیکی ضرور کریں چاہے وہ بہت چھوٹی سی ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی زندگی میں چیرٹی کے کام ضرور کریں۔ کسی بچے کی پڑھائی کا بندوبست کر دیں، کسی غریب بچی کی شادی کرا دیں، کسی بیمار کا علاج کرا دیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیں آپ جتنا کر سکتے ہیں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق چیرٹی ضرور کریں۔ یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو آپ کی روح کو پاکیزہ کر دیں گے۔
مری کا دو روزہ سیشن ایک لائیو چینجنگ تجربہ تھا جہاں چوہدھری صاحب کی دانشمندانہ باتوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا وہیں بہت سے نئے اچھے دوست بنے۔ میری دعا ہے کہ اللہ کریم! چودھری صاحب کو صحت والی لمبی زندگی دے اور وہ اسی طرح تا دیر اصلاحی نشستوں کا انتظام کرتے رہیں۔

