Central London Mein Guzra Aik Din
سینٹرل لندن میں گزرا ایک دن

کوئی بھی شخص لندن آئے اور سینٹرل لندن نہ دیکھے، ایسا ہو نہیں سکتا۔ 11 اپریل کے دن صبح 9 بجے ذیشان اور میں لندن کی مشہور جگہیں بکنگم پیلس، لندن آئی، بگ بین اور لندن ٹاور دیکھنے کے لیے ہاسٹل سے نکلے۔ کیونکہ میں لندن پیدل گھومنا چاہتا تھا اور لندن کا میٹرو سسٹم اور پبلک بس سسٹم بھی دیکھنا چاہتا تھا اس لیے ہم دونوں اس دن گاڑی کے بجائے پیدل نکلے اور کچھ دیر چلنے کے بعد میٹرو اسٹیشن پہنچ گئے اور میٹرو ٹرین کے ذریعے وکٹوریا اسٹیشن پہنچ گئے۔
جونہی میں وکٹوریا ریلوے اسٹیشن پہنچا تو اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ وہ اسٹیشن کسی بھی ایئرپورٹ سے کم نہیں تھا۔ اس اسٹیشن سے نہ صرف پورے انگلینڈ میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی ٹرینز جاتی ہیں۔ اس میٹرو اسٹیشن پر جگہ جگہ الیکٹرانک بورڈ آویزاں تھے جن پر مختلف شہروں میں جانے والی ٹرینز کے نمبرز اور اوقات بالکل ایسے ہی نظر آرہے تھے جیسے کسی ایئرپورٹ پر جہاز کے بارے میں معلومات دکھائی دے رہی ہوتی ہیں۔
ہم وکٹوریہ اسٹیشن سے پیدل چلتے ہوئے پانچ منٹ کے بعد بکنگم پیلس پہنچ گئے، بکنگم پیلس لندن کے علاقے ویسٹ منسٹر (Westminster) میں واقع ہے۔ یہ پیلس ایک عمارت ہی نہیں بلکہ لندن کی پہچان بھی ہے۔ یہ پیلس برطانوی بادشاہت کی سرکاری رہائش کے علاوہ انتظامی امور کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہ جگہ صرف برطانوی بادشاہت کی وجہ سے ہی مشہور نہیں بلکہ یہ عمارت قومی تقریبات کی وجہ سے بھی شہرت رکھتی ہے۔
یہ محل 1703ء میں بنایا گیا اور1761ء میں یہ بادشاہ جارج تھری نے اپنی بیوی کی رہائش گاہ کے لیے حاصل کر لیا جس کا نام کوئین (Charlotle) تھا۔ اسی وجہ سے یہ اسے کوین پیلس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ محل 1837ء میں اس وقت برطانوی شاہی خاندان کی مستقل رہائش گاہ بنا جب ملکہ وکٹوریہ تخت نشین ہوئیں۔ ابتدائی طور پر تو اس محل کے مرکزی معماروں میں جان نوش (John Nosh) اور ایڈورڈ بلور (Edward Blore) کا نام آتا ہے۔ اس محل کا بیرونی مشرقی حصہ اور اندرونی بالکونی 1850ء میں اور پھر 1913ء میں تعمیر کی گئی۔
ذیشان اور میں بکنگم پیلس کے سامنے کھڑے تھے اور میں اس عالیشان عمارت کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ اس عمارت کو اولڈ برٹش اسٹائل میں بنایا گیا ہے، یہ محل کتنا بڑا ہے اس کا اندازہ آپ اس میں موجود کمروں کی تعداد سے لگا سکتے ہیں جن کی کل تعداد 775 ہے۔ ہم محل کے مرکزی دروازے کے پاس کھڑے تھے جہاں سے وہ بالکونی دکھائی دے رہی تھی جہاں کسی مرکزی تقریب کے دوران شاہی خاندان کے افراد جلوہ گر ہوتے ہیں۔ محل کے مرکزی دروازے کے سامنے گھوڑوں پر موجود گارڈز کی تبدیلی کی تقریب بھی ہر روز ہوتی ہے۔ ہم نے وہ تقریب تو نہ دیکھی لیکن اس وقت وہاں گارڈز ضرور موجود تھے۔
اس محل کے بالکل سامنے ایک بڑا چبوترا بھی موجود ہے جس پر بڑے بڑے دو بڑے بڑے مجسمے ہیں۔ اکثر سیاح اس چبوترے پر کھڑے ہو کر اپنی تصاویر بناتے ہیں، لہذا ذیشان اور میں نے بھی وہاں کھڑے ہو کر یادگار کے طور پر ایک تصویر بنائی۔ اس محل کے بالکل ساتھ ہی ہائیڈ پارک (Hyde Park) ہے جو 39 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے۔ ایک اور بات جو میں نے وہاں محسوس کی وہ یہ تھی کہ بکنگم پیلس کی طرف آنے والی مرکزی شاہراہ کا رنگ سرخی مائل تھا اور یہ سڑک محل کے سامنے سے ڈی شکل بناتے ہوئے محل کے دائیں اور بائیں سے آگے نکل جاتی ہے۔ سڑک کا یہ رنگ بھی یقیناََ شاہی خاندان کو عزت دینے کے لیے بھی کیا گیا ہوگا۔
برطانیہ کے شاہی خاندان کا اب سیاست میں تو کوئی عمل دخل نہیں لیکن وہاں کے لوگ شاہی خاندان کو اپنے لیے عزت کا باعث سمجھتے ہیں۔ میں نے سیاسیات کی کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ برطانوی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ دنیا میں آخر میں صرف پانچ بادشاہ باقی رہ جائیں گے، چار تاش کے پتوں کے اور ایک برطانیہ کا بادشاہ۔ یعنی دوسرے لفظوں میں صرف برطانیہ میں ہی بادشاہت قائم رہے گی باقی سب ختم ہو جائیں گی۔ اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ برطانیہ کے لوگ کس قدر اپنے شاہی خاندان کو عزت اور محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ برطانوی بادشاہت کی یہ رہائش گاہ ایک عمارت ہی نہیں بلکہ یہ قومی اتحاد کی علامت بھی ہے۔
11 اپریل کے دن لندن کا موسم بہت خوشگوار تھا، دھوپ نکلی ہوئی تھی اور ہم اس دھوپ میں محل کے سامنے لان میں کھڑے تھے جہاں مختلف اقسام کے پھول بہت بھلے محسوس ہو رہے تھے۔ اس محل کو دیکھنے کے بعد ہم اس کے ساتھ ہی ہائیڈ پارک میں آگئے۔ یہ پارک لندن کا سب سے بڑا اور مشہور پارک ہے جہاں ہر وقت سیاح موجود ہوتے ہیں۔ چونکہ یہاں لندن میں بہار کا موسم شروع ہو چکا تھا اس لیے پارک میں موجود درختوں پر کونپلیں نکلتی دکھائی دے رہی تھیں اور مختلف قسم کے پرندے بھی پارک میں نظر آ رہے تھے۔
میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ وہاں مختلف پرندوں کے علاوہ کبوتر اور کوے بھی بڑی تعداد میں سرسبز و شاداب گھاس پر دانہ چن رہے تھے لیکن وہ کسی شخص کے ڈر کی وجہ سے اڑ نہیں رہے تھے، اس لیے کہ انہیں یہ یقین تھا کہ یہاں کوئی شخص انہیں نہ تو پکڑنے کی کوشش کرے گا اور نہ ہی کوئی نقصان پہنچائے گا۔ میں ہمیشہ یہ سمجھتا رہا کہ کوا ایک ڈرپوک سا پرندہ ہے اور یہ ڈر اس کی فطرت میں شامل ہے، ذرا سا ہاتھ کا اشارہ کریں تو وہ اڑ جاتا ہے لیکن لندن کے اس پارک میں مجھے سمجھ آئی کہ یہ ڈر کوے یا کبوتر میں نہیں ہوتا یہ ڈر تو ہم انسان ان کے ذہن میں ڈالتے ہیں۔ ورنہ اس کی نیچر میں تو ڈر نہیں۔ یہاں ہم پہلے پرندوں کو پکڑتے ہیں، انہیں پنجروں میں بند کر دیتے ہیں اور پھر آزاد کروا کے ثواب کماتے ہیں۔ لیکن وہاں کسی کی جرات نہیں کہ پرندوں کو ہاتھ بھی لگائے۔
ہم کچھ دیر پارک میں چہل قدمی کے بعد ہم وہاں سے لندن کی ایک اور جگہ بگ بین (Big Ben) دیکھنے آ گئے۔ لندن کی مشہور ترین جگہوں میں ایک بگ بین بھی شامل ہے۔ اسے دیکھنے سے پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ جگہ بھی لندن کی پہچان ہے اور بہت بڑے کلاک کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہم جونہی بگ بین کی خوبصورت عمارت کے سامنے پہنچے تو ٹاور کے کلاک سے ٹن ٹن کی آوازیں سنائی دیں کیونکہ اس وقت دن کے دو بج رہے تھے۔ بگ بین لندن ہی نہیں بلکہ انگلینڈ کی ایک مشہور جگہ ہے جسے گریٹ بیل یا کلاک ٹاور بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ٹاور برطانوی پارلیمنٹ کے مشرقی حصے پر واقع ہے اور اس کے ساتھ دریا کا کنارہ ہے۔ یہ ٹاور 1834ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں لگنے والی آگ کے بعد تعمیر کیا گیا۔
بگ بین نام کی اصل وجہ 135 ٹن وزنی بیل ہے۔ مگر کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ نام (Sir Beogamon Hall) یا اس وقت کے مشہور باکسر (Beijamin Caunt) کے نام پر رکھا گیا ہے۔ بہرحال 2012ء میں ملکہ الزبتھ کی گولڈن جوبلی پر اس کا نام تبدیل کرکے الزبتھ ٹاور رکھ دیا گیا۔ یہ ٹاور 96 میٹر یعنی 316 فٹ اونچا ہے، اس کے چاروں طرف سے نظر آنے والے گھڑیال کا ڈایا میٹر سات میٹر ہے۔ یہ گھڑیال کتنا بڑا ہے؟ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اس گھڑیال کی منٹوں والی سوئی 4.2 میٹر جبکہ گھنٹوں والی سوئی 7.2 میٹر لمبی ہے۔ اس گھڑیال کی بیل ہر 15 منٹ بعد بجتی ہے، یہ عمارت برٹش کلچر کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کلاک کو (Edmumd Beckett Denison) نامی شخص نے ڈیزائن کیا جبکہ اس کلاک کو Edward John Dent نے بنایا۔ بگ بین کو برطانیہ میں سنبل آف ڈیموکریسی (Symbol of democeray) بھی کہا جاتا ہے۔
ذیشان نے مجھے بتایا کہ نئے سال کی تقریبات کا آغاز بھی بگ بین کی بیل کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور نیو ایئر نائٹ پر یہاں لاکھوں کی تعداد میں سیاح موجود ہوتے ہیں۔ یہ کلاک ٹاور واقعی دیکھنے کی جگہ ہے، اس عمارت کے سامنے ایک خوبصورت لان بنا ہے اور اس لان کے سامنے سیاحوں کے لیے وسیع جگہ پر بہت سی نامور شخصیات کے مجسمے ہیں، جنہوں نے دنیا میں اپنے اپنے ملک کی آزادی کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ مختلف ممالک کے سیاح ان مجسموں کو دیکھ رہے تھے۔ ایک گائیڈ نلسن منڈیلا کے مجسمے کے سامنے کھڑا ہو کر سیاحوں کو ان کی اپنی قوم کے لیے کی گئی خدمات کے بارے میں آگاہ کر رہا تھا۔
ہم بگ بین کے سامنے ان مجسموں کو دیکھتے ہوئے کلاک ٹاور کے پیندے کے پاس آ گئے جہاں ایک گورا وائلن بجا رہا تھا اور لوگ اس کے سامنے رکھے ویلن کے کور میں پیسے رکھ رہے تھے۔ ہم وہاں سے پیدل چلتے ہوئے کلاک ٹاور کے ساتھ بنے ہوئے اس پل پر آ گے جو دریائے تھیمز پر بنا ہے۔ اس پل سے بگ بین کا نظارہ بھی کمال تھا۔ وہاں کھڑے ہو کر دیکھیں تو بگ بین اور برطانوی پارلیمنٹ کی ساری عمارت یوں محسوس ہو رہی تھی کہ جیسے پانی پر کھڑی ہو۔ اس پل کی دوسری جانب لندن آئی کا بہت بڑا ویل دکھائی دے رہا تھا، جسے شاید ہی کوئی ایسا سیاح ہو جو لندن آئے اور پھر لندن آئی کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی تصویر نہ بنوائے۔
لندن آئی کو ملینیم آئی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نئی صدی کے آغاز پر 2000ء میں بنایا گیا تھا۔ یہ ویل دریائے تھیمز کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اور دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پر کشش مقام ہے۔ اس ویل کو سیاحوں کے لیے 9 مارچ 2000ء کو کھولا گیا اور اس کا افتتاح اس وقت کے وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کیا۔ اس ویل کی بلندی 135 میٹر یا 443 فٹ ہے جو کہ سنگاپور کے Flyer ویل سے زیادہ ہے، اس ویل کا ڈایا میٹر 120 میٹر اور اس کا وزن 2100 ٹن ہے۔ اس ویل میں 32 کیپسول ہیں اور ہر کیپسول میں 25 لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ اس ویل کا پورا چکر تقریباََ 30 منٹ میں مکمل ہوتا ہے سیاح اس سے سارے لندن کو چاروں اطراف سے دیکھ سکتے ہیں۔ اس لندن ویل پر ہر سال تقریباََ 3.5 ملین لوگ بیٹھتے ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے یہ انگلینڈ کا سب سے زیادہ کمائی والا مقام بھی ہے۔
لندن چونکہ اپنی پرانی طرز کی عمارتوں کی وجہ سے مشہور ہے لیکن یہ لندن آئی یعنی یہ ویل دراصل ماڈرن لندن کی ایک مثال ہے۔ ہم نے بھی لندن آئی کے سامنے دریا تھیمز کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہو کر جہاں سے پورا ویل ٹھیک دکھائی دے رہا تھا تصویر بنائی۔ اس دن لندن کا موسم چونکہ خلاف معمول گرم تھا جس کی وجہ سے زیادہ دیر دھوپ میں کھڑا ہونا مشکل تھا اس لیے تھوڑی دیر ہم دریا کے کنارے چھاؤں میں بیٹھ کر لندن آئی اور بگ بین کا نظارہ کرتے رہے اور آئس کریم سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس کے بعد ہم نے لندن برج دیکھنے کا پروگرام بنایا، وہاں سے ہم قریبی بس سٹاپ پر گئے اور ڈبل ڈیکٹر بس میں اوپر والے حصے میں سوار ہو کر لندن برج کی طرف چل دیے۔
ہم دونوں سب سے اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے جہاں سے سامنے کا ویو صاف دکھائی دے رہا تھا۔ سینٹرل لندن میں ہر روز ہی بے شمار سیاح آتے ہیں لیکن کمال بات یہ ہے کہ اتنا زیادہ رش ہونے کے باوجود وہاں ٹریفک ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رکتی۔ اس کی وجہ لندن سٹی کا شاندار ٹریفک سسٹم اور جگہ جگہ ٹریفک سگنلز ہیں، چونکہ سگنل توڑنے پر بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں اس لیے وہاں کوئی بھی شخص ان سگنلز کی خلاف ورزی کرنے کا سوچتا بھی نہیں۔ میں 9 دن لندن رہا لیکن میں نے کسی جگہ بھی کوئی پولیس سارجنٹ نہیں دیکھا جو ٹریفک کنٹرول کر رہا ہو۔ جگہ جگہ کیمرے نصب ہیں جس کی وجہ سے کوئی ٹریفک رولز کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ہم بس کے 25 منٹ کے سفر کے بعد لندن برج پہنچ گئے۔

