Aik Fard, Aik Tehreek
ایک فرد، ایک تحریک
دیو جانسن کلبی یونان کا ایک مشہور فلسفی تھا۔ ایک دفعہ اس کے پاس اس وقت کا امیر ترین شخص اپنے دوست کے ساتھ ملنے آیا۔ اس امیر شخص نے اپنے دوست کا تعارف دیو جانسن کلبی سے کروایا کہ یہ میرا دوست ہے اور شعبے کے لحاظ سے ماشکی (سڑک پر پانی چھڑکنے والا) ہے۔ جب دیو جانسن کلبی نے یہ سنا تو اس نے ایک زور دار قہقہ لگایا۔ وہ امیر شخص بہت حیران ہوا اور اس نے حیرت سے دیو جانسن کلبی سے پوچھا؟ یا استاد، اس بات پر آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟
دیو جانسن کلبی بولا، میں ہنس تو اس لیے رہا ہوں کہ تم اس وقت یونان کے امیر ترین شخص ہو اور تم اپنے دوست کا تعارف کروا رہے ہو کہ یہ ماشکی ہے، تم اس کے کیسے دوست ہو کہ تمہاری امارت کا تمہارے دوست کی زندگی پر کوئی فائدہ نہیں پڑا، وہ بیچارہ غریب کا غریب ماشکی ہی رہا۔ اس حوالے سے میں بھی جب قاسم علی شاہ صاحب کو دیکھتا ہوں تم مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کے دور کا یہ وہ امیر فلسفی ہے کہ جو بھی اس سے جڑا، شاہ جی نے اسے بھی علم، شعور اور دانست کی دولت سے مالا مال کر دیا۔
22 جنوری کو قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کی 6 سالہ خدمات اور قاسم علی شاہ کی شخصیت پر لکھی جانے والی کتاب "ایک فرد ایک تحریک" کی رونمائی کی ایک شاندار تقریب الحمرا ہال لاہور میں منعقد ہوئی جس میں ہزاروں نوجوانوں نے شرکت کی جن کا فاؤنڈیشن سے کسی نہ کسی حوالے سے تعلق رہا۔ اس تقریب میں ملک کی نامور شخصیات نے شرکت کی جن میں جناب قیوم نظامی، سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب انوارالحق، ڈی آئی جی پولیس لاہور عبدالغفار قیصرانی، سی۔ ای۔ او الکبیر چوہدری اورنگ زیب، کامران سعید، وجاہت خان، طاہر شریف، لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر اور دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔
"ایک فرد ایک تحریک" کتاب میں 180 کے قریب لوگوں نے شاہ صاحب کی شخصیت کے بارے میں مضامین لکھے۔ میں اسے باعث اعزاز سمجھا ہوں کہ اس کتاب میں"زندگی بدل دینے والا استاد" کے عنوان سے میرا مضمون بھی شامل ہے۔ ڈی آئی جی لاہور پولیس عبدالغفار قیصرانی نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قاسم علی شاہ کو میں پچھلے چودہ، پندرہ سالوں سے اس وقت سے جانتا ہوں، جب یہ گلشن راوی میں ایک چھوٹی سی اکیڈمی چلاتے تھے۔
میرے کزن کا گھر بھی گلشن راوی میں تھا، میں جب بھی اپنے کزن کے پاس جاتا تو قاسم علی شاہ سے میری ملاقات کبھی اکیڈمی میں ہو جاتی اور کبھی مسجد میں۔ میں ان دنوں سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا اور یہ ان دنوں بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ خود بھی بہت سی کتابیں پڑھتے تھے اور کہتے تھے میں ایک نامور استاد اور موٹیویشنل اسپیکر بننا چاہتا ہوں لیکن میں ان کی بات کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتا تھا۔ کیونکہ ایک تو اس وقت پاکستان میں موٹیویشنل اسپیکر کا لفظ بہت کم سننے کو ملتا تھا اور نہ ہی لوگوں کو اس کی اہمیت کا اندازہ تھا۔
دوسری بات یہ کہ لوگ مستقل مزاج نہیں ہوتے، آپ ایک بار کسی سے ملتے ہیں تو وہ کہے گا میں شوگر مل لگا رہا ہوں، اگلے سال وہ کہے گا میں پلازہ بنانا چاہتا ہوں اور اس سے اگلے سال اس کا ارادہ پرائیویٹ سکول بنانے کا ہوتا ہے۔ میرا خیال قاسم علی شاہ کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی تھا، مگر یہ بندہ کمال کا مستقل مزاج نکلا اور خاموشی سے محنت کرتا رہا۔ میں سی ایس ایس کر کے پولیس کے محکمے میں آ گیا، ہم پولیس والے بڑے شکی مزاج ہوتے ہیں۔
مجھے کبھی کبھی یوں لگتا تھا کہ کسی دن مجھے کسی ایس ایچ او کا فون آئے گا، جو کہے گا کہ ہم نے قاسم علی شاہ کو پکڑا ہوا ہے اور یہ آپ کا نام لے رہا ہے کہ میں عبدالغفار قیصرانی کا دوست ہوں، تو میں اسے کہوں گا یہ شریف آدمی اسے چھوڑ دو۔ لیکن جب اللہ کسی کو چن لیتا ہے تو اسے اس عروج پر پہنچا دیتا ہے جہاں آج قاسم علی شاہ ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہم جب کبھی دونوں کسی ریسٹورنٹ میں کافی پینے یا کھانا کھانے جاتے ہیں تو میں اکثر دیکھتا ہوں جو بھی شاہ صاحب کو دیکھتا ہے وہ انہیں ملنے کے لیے آ جاتا ہے اور ساتھ تصویر بنوانے کی درخواست کرتا ہے اور شاہ صاحب بڑی عاجزی کے ساتھ ہر کسی کو یوں ملتے ہیں جیسے وہ سالوں سے اسے جانتے ہوں۔
سچی بات تو یہ ہے مجھے اندر ہی اندر یہ محسوس ہوتا ہے کے پولیس کا ڈی آئی جی میں ہوں مجھے کوئی پوچھ نہیں رہا اور شاہ صاحب کے ساتھ لوگ تصویریں بنوانا اعزاز سمجھتے ہیں تو پھر مجھے شاہ صاحب پر رشک محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے میں کمال کی عاجزی رکھی ہے۔ جس بندے کے بارے میں کبھی میرا خیال تھا کہ یہ سب خیالی باتیں کرتا ہے اب میں اکثر سوچتا ہوں کہ کسی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے اگر شاہ صاحب میرا نام بھی لے لیں گے تم میری بھی بلے بلے ہو جائے گی، لوگ مجھے بھی جاننے لگے گے اور آج میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ قاسم علی شاہ میرا دوست ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب انوار الحق نے بھی اپنے خطاب میں قاسم علی شاہ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام "آو صلح کروائیں" پروجیکٹ کے تحت ہم اب تک 23000 ان جوڑوں کی صلح کروا چکے ہیں جن میں ناچاقی کی وجہ سے ان کے بچے خوار ہو رہے تھے اور اس خیر کے کام میں قاسم علی شاہ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ مشہور صحافی اور اینکر پرسن فرخ شہباز وڑائچ نے شاہ صاحب کی دلچسپ انداز میں تعریف کی۔
ان کا کہنا تھا کہ قاسم علی شاہ کے بہت سے گناہوں میں ایک گناہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس قوم کے نوجوانوں کو امید، خود شناسی، اپنی تلاش، علم، شعور اور اخلاقی قدروں سے روشناس کروایا ہے۔ اگر یہ چاہتے تو کسی بھی دوسرے ملک میں جا کر آرام سے پیسے کما سکتے تھے لیکن انہوں نے اس نوجوان نسل کے لیے دن رات کام کر کے بلامعاوضہ کام کیا۔ معروف اسٹاک مارکیٹ ایکسپرٹ جواد حفیظ نے کہا کہ لوگوں کی عزت کرنا میں نے شاہ جی سے سیکھا۔
نامور شاعر طاہر شہیر اس نے اس پروگرام کی میزبانی بہت اچھے انداز سے کی۔ ان کا ایک فقرہ بہت کمال کا تھا کہ چھوٹا آدمی چھوٹی باتوں میں الجھ کر چھوٹا ہو جاتا ہے اور بڑا آدمی بڑی بڑی باتوں کو بھی اگنور کر دیتا ہے۔ آخر میں قاسم علی شاہ صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کے اندھیرے کا مقابلہ اندھیرے سے نہیں کیا جا سکتا، بس اس کا صرف ایک ہی حل ہوتا ہے کہ آپ مزید شمعیں روشن کر دیں۔
جہالت کا اندھیرا جتنا زیادہ ہوگا شعور کی شمع سے اتنی ہی زیادہ روشنی پھیلے گی۔ انہوں نے خود پر تنقید کرنے والوں کے بارے میں یہ کہا کہ میں ہمیشہ ان کے لیے دل سے دعا کرتا ہوں۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے اس تقریب میں مجھے بھی بولنے کا موقع دیا گیا۔ اللہ کریم قاسم علی شاہ صاحب کو ہمیشہ سلامت رکھے اور اسی طرح اس نوجوان نسل کے لئے خیر کا کام کرتے رہیں۔