Hunar Mand Nasal Tayyar Kijiye
ہنر مند نسل تیار کیجئے
مجھ سے اکثر دوست کہتے ہیں کہ ان کےبیٹے نے میٹرک یا ایف اے کر لیا ہے اب مزید پڑھانے کی سکت نہیں رکھتا اس کی کہیں پرائیوٹ نوکری لگوا دومیرا زورِ بازو بن جائے گا، میں سب دوستوں کو ایک ہی مشورہ دیتا ہوں کہ اسے نوکری کی بجائے کوئی ہنر سکھاو، وقتی طور پہ کہیں نوکری لگ توجائے گی مگراس سے وہ بس دو وقت کی بمشکل روٹی ہی پوری کرپائے گاکیونکہ آج کے اس سخت ترین دور میں جہاں ہائی کوالیفائیڈ نوجوان دھکے کھاتے پھر رہے ہیں وہاں میٹرک یاایف اے پاس کو اچھی نوکری کیسے مل سکتی ہے؟ ہم لوگ ہمیشہ اپنے کم پڑھے لکھے بچوں کو وقت پاس کرنے کے لئے معمولی سی نوکری لگوا کر ان کے مستقبل کو ہمیشہ کے لئے تاریک کر دیتے ہیں۔
روایت مشہور ہے کہ ایک دفعہ کوئی غریب شخص نبی مکرمؐ کے پاس مالی امدادلینے کی درخواست لے کر آیا تو آپؐ نے اس کی مالی مدد کرنے کے بجائے اسے کلہاڑا خرید کر دیا اور کہا کے جاواس سے جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور بازارمیں فروخت کرکے رزق کماو، بیروزگاری ختم کرنے کا سب سے بہترین طریقہ تھا جو دنیا کی سب سے افضل ترین ہستیؐ نے ہمیں سکھادیا ہے۔
جتنا مرضی امیر ملک ہووہاں کی حکومت تمام بیروزگاروں کو سرکاری ونیم سرکاری ملازمتیں فراہم نہیں کرسکتی، سرکاری محکموں میں ملازمین کی تعداد محدود ہوتی ہے اور اتنا کام نہیں ہوتا کہ ملک کی ساری بے روزگار آبادی کو ملازمت دے دی جائے، اتنا بجٹ بھی نہیں ہوتا کہ حکومت اپنی عوام کو بٹھا کر تنخواہیں دیتی رہے، بیروزگاری ختم کرنے کا ایک ہی حل ہے وہ یہ کہ ملک میں کاروباری ایکٹیویٹیز کو فروغ دیا جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ عوام مختلف قسم کے کاروبار شروع کر سکے، اور اس کاروبار سے منسلک لوگ دوسرے افراد کو بھی نوکریاں فراہم کریں۔
یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کو دیکھا جائے تو وہاں بھی سرکاری نوکریوں کا رجحان زیادہ نہیں ہے وہاں زیادہ تر فری لانسر یعنی وہ لوگ جو فرد واحد ہو کر اپنی خدمات کے عوض معاوضہ وصول کرتے ہیں، اوروہاں ملازمت پیشہ افراد کیی بنسبت فری لانسر افراد زیادہ پیسہ کماتے ہیں اوریہی وجہ ہے عوام کے اکثریت معاشی طور پہ مضبوط ہیں اور اپنی زندگی کی بنیاد ضروریات کو آسانی سے پورا کر لیتی ہے۔
اب اگر ہم اپنے ملک پاکستان میں نظر دوڑائیں تو ہر شخص یہ چاہتاہے کہ حکومت اسے اچھی نوکری دے تاکہ وہ سارا دن کرسی پہ آرام سے بیٹھے اور رشوت لے کر عیاشی کرسکے، جن کے پاس تعلیمی قابلیت زیادہ نہیں وہ چھوٹی موٹی پرائیوٹ نوکری کرلیتے ہیں لیکن وہاں بھی کام کرنا عذاب سمجھتے ہیں، ہمارے گلی محلوں میں دیکھ لیں آپ کو ہنر مندافراد مثلاَ الیکٹریشن، پلمبر، مستری، ٹی وی مکینک، کار موٹرسائیکل کے مکینک وغیرہ بہت کم نظر آئیں گے اور جو آئیں گے ان کی گردن میں ویسے سریا ہوتا ہے، اگر ان سے کوئی کام پڑ جائے تو پہلے تو وہ آسانی سے آپ کو وقت نہیں دیں گے اگردے بھی دیں گے تو معاوضہ اتنا مانگیں گے کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور پھر اگر کام کروانے کےلیے آپ کو سامان کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو وہ آپ کواس دکان پہ لے جائیں گے جہاں سے ان کو گاہک لانے کی کمیشن ملتی ہے، اور جہاں ان کے داو لگ جائے وہاں اصل سپئیر پارٹس نکال کر پرانے ڈال دیتے ہیں۔
ایک دوست بتا رہے تھے کہ یورپ میں جتنے بھی ہنر مند افراد ہیں وہ انتہائی پروفیشنل ہوتے ہیں اور باآسانی مل بھی جاتے ہیں اور معقول معاوضہ لے کر پوری ایمانداری سے اپنا کام کرتےہیں۔ لوگ گھر کے باہر گھر کی چابی رکھ کر اپنے کام پر نکل جاتے ہیں اورپیچھے وہ لوگ آکر کام مکمل کرکے چلے جاتے ہیں اور مجال ہے کہ کسی چیز کو چھیڑیں۔ سعودی عرب میں ایک وقت تھا جب خارجی کماتے تھے اور سعودی کفیل بیٹھ کر کھاتے تھے مگر اب وقت بدل چکا ہے اب سعودیوں کو پتہ چل چکا ہے کہ اگر آنے والی نسل کو ہنر مند نا بنایا تو سعودی عرب میں غربت بڑھ جائے گی اور معاشی بحران زور پکڑ لے گا اسی لئے وہاں کی حکومت نے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مرد و خواتین کو ہر قسم کے ہنر سکھانے کے ادارے قائم کردئیے ہیں۔
میں نے بہت سارے ایسےنوجوان دیکھے ہیں جنہوں نے ایف ایس سی، انجینرنگ کر لیااور پھر نوکری ملنے کے انتظار میں بیٹھ جاتےہیں لیکن کوئی ہنر نہیں سیکھتے، سیکھا ہوا ہنر کبھی ضایع نہیں ہوتا کبھی نا کبھی کام آہی جاتا ہے، نہ ہم لوگ کوئی کام سیکھتے ہیں، نہ ہمارے پاس مالی وسائل، نہ تعلیمی قابلیت، لیکن ہمارے نخرے اتنے کہ پلمبنگ یا الیکٹریشن کا کام ہماری شان گھٹا دیتا ہے ہم محلے والوں سے ادھار مانگ کر موبائل خرید لیں گے لیکن ریڑھی پر بریانی بیچنا ہماری عزت نفس مجروح کردیتا ہے۔ ہم لوگ باہر کے ممالک میں جاکر سڑکوں سے گندگی کے ڈھیر اٹھانے کی نوکری کر لیتے ہیں، عربوں کے صحراوں میں اونٹ تک چرا لیتے ہیں مگر اپنے ملک میں چھوٹا کام کرنا توہین سمجھتے ہیں۔
ایسی قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی چاہے حکمران کوئی مجدد یا اللہ کا ولی ہی کیوں نہ بن جائے، جب تک آپ محنت اور ایمانداری نہیں اپناتے، ہمیشہ مقروض رہیں گے اور مہنگائی کا رونا روتے رہیں گے۔