Dohra Mayar
دوہرا معیار
20 جولائی 2021 کو اسلام آباد میں ایک ہولناک قتل کی واردات رپورٹ ہوئی، تفصیلات آنے پر پتہ چلا کہ قتل ہونے والی لڑکی سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی ہیں۔ خبر چلنے کے بعد پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ہر طرف سابق سفیر کی مقتولہ بیٹی نور مقدم کی تصاویر شئیر ہونے لگیں۔ نور مقدم 27 سالہ خوبرو لڑکی تھی جسے اس کے دوست نے اپنے گھر میں تشدد کے بعد وحشیانہ طریقے سے قتل کر ڈالا۔ چونکہ مقتولہ سابق سفیر کی بیٹی تھیں اس لیے حکومتی نمائندے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے اور بہت کم وقت میں قاتل کو گرفتار کرلیاگیا۔
ہمارے ملک کے وزراء نے اس ظلم پر اظہار افسوس کے ٹویٹس کیے۔ سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی کے قتل پر عدالت نے بھی فوری نوٹس لے لیا اور اسلام آباد پولیس نے ایک تفتیشی ٹیم بنا کر اپنا کام شروع کردیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی لے لی گئی۔ اس قتل نے نہ صرف حکومت کو بلکہ پورے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا۔ نور مقدم کے قتل کا مقدمہ درج ہونے کے بعد آج کل عدالت میں کیس چل رہا ہے قاتل بھی جیل میں ہے۔ پورا یقین ہے کہ مقتولہ کے ورثاء کو جلد انصاف مل جائے گا۔
8 نومبر 2021 کو اسلام آباد کے میٹرو اسٹیشن کے واش روم سے 11 سالہ بچی کی لاش ملی پوسٹ مارٹم کے مطابق لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے۔ مقتولہ کے جسم پر زخم اور خراشوں کے نشانات ہیں۔
آپ نے یہ دونوں خبریں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر پڑھی ہوں گی اور پھر اپنے ملک کے اداروں کو حرکت میں آتے بھی دیکھا ہوگا۔ مگر ایک فرق صاف نظر آیا ہوگا کہ پہلی مقتولہ ایک سابق سفیر کی بیٹی تھی جبکہ دوسری نامعلوم شخص کی لخت جگر تھی لڑکی کی ظاہری حالت سے یہی لگ رہا ہے کہ کسی غریب گھر کی یا پھر بھکاری تھی جسے زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ نور مقدم کے قتل پہ آپ نے میڈیا کو چیختے اور ماتم کرتے دیکھا ہوگا۔ ہمارے وزراء کی آہ و بکا بھی سنی ہوگی۔ پولیس کی جدید طریقے سے تحقیقات بھی دیکھی ہوں گی۔ سوشل میڈیا پر انسانیت کے علمبرداروں کی لمبی لمبی تحاریر بھی پڑھی ہوں گی۔ مگر میٹرو اسٹیشن کے واش روم میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی لڑکی کی خبر آپ نے کتنی دفعہ دیکھی؟ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر کتنا واویلا دیکھا؟ سوشل ورکزر اور میرا جسم میری مرضی والی آنٹیوں کو کتنی بار احتجاج کرتے دیکھا؟ کسی وزیر مشیر کا دُکھ بھرا ٹویٹ دیکھا؟
میٹرو اسٹیشن کے واش روم سے ملنے والی بچی کا قاتل باپ نکلا اور گرفتار بھی ہوگیا مگر بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف کا اسٹینڈرڈ ڈبل ہے۔ حیثیت دیکھ کر اہمیت دی جاتی ہے۔
اگر ایسا کچھ نہیں دیکھا تو بھول جائیں کہ اس ملک میں سب برابر ہیں۔ یہاں انصاف بھی امراء کے لئے ہے۔ ہمدردیاں بھی بڑے لوگوں کے لئے ہیں۔ حکومت کی محبتیں بھی اپنے وزیروں اور سفیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ ہیں۔ ہماری پولیس اور عدالتیں بھی صرف انہی لوگوں کو اہمیت دیتی ہیں۔ ہم یہاں کیڑے مکوڑوں سے بڑھ کر نہیں۔
اس ملک میں انصاف دلانے والے سکولوں میں ناظرے قرآن چیک کرتے پھرتے ہیں اور انصاف لینے والے سارا دن عدالتوں کے باہر زمین پر بیٹھ بیٹھ کر شام کو واپس گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ضمانت کے انتظار میں بے گناہ قیدی صرف انتظار میں رہتے ہیں کہ کب ہمارے وکلاء کی ہڑتالیں ختم ہوں۔ غریب اور عزت دار آدمی تھانے کی طرف اس ڈر سے رُ خ نہیں کرتا کیوں کہ اسے خوف مجرم سے کم اور محافظوں سے زیادہ ہے۔
اس ملک میں تب تک امن و سکون قائم ہو ہی نہیں سکتا جب تک قانون اور انصاف کا بول بالا نہ ہو۔ جب تک عزت و احترام اور معاشرے میں مقام سب کو ایک جیسا نہ مل جائے (جو کہ اس ملک میں ناممکن ہے)۔ اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو یہ سب قتل اور ظلم ہمارے حکمرانوں کے سر ہیں اور ایک دن وزیر اعظم صاحب سے لے کر عام پولیس والے نے سب سے بڑی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں مظلوم کا ہاتھ ہو گا اور ظالمین کے گریبان۔