Bahar O Khizan
بہار و خزاں
ایک فیس بک پیج پہ ویڈیو دیکھی جو پورا سال جنگل کے درختوں کی ریکارڈنگ کرکے اپ لوڈ کی گئی تھی اس ویڈیو کی خاص بات یہ تھی کہ پورے سال کی ریکارڈ شدہ فلم کو صرف چالیس سیکنڈ پہ کنورٹ کردیا گیا۔ ان چالیس سیکنڈز میں درختوں کے بدلتے رنگ، درختوں پہ سردی، گرمی، بہار خزاں کے اثرات دکھائے گئے۔ جو پودا تھا وہ درخت بن گیا، جس درخت پہ پھل نہ تھے اس پہ پھل لگے، پھل پک کر زمین پہ گرے، پھر خزاں آئی تو اس درخت کے پتے گرنے لگے، سبز رنگ کی جگہ زرد ٹہنیوں اور پتوں نے لے لی، جس بات نے مجھے یہ سطریں لکھنے پہ مجبور کیا وہ یہ تھی کہ جب درخت سرسبز تھے اور پھل دار تھے تب اس پہ پرندوں کے گھونسلے بھی بنے اور پرندوں کا رش بھی رہا لیکن جوں ہی درخت کی ٹہنیوں پہ خزاں نے بسیرا کیا تب نا گھونسلے رہے نا ہی پرندے۔
اس چالیس سیکنڈ کی ویڈیو نے ہمیں پوری زندگی کا فلسفہ بتانے کی کوشش کی ہے، ہم کبھی دودھ پیتے بچے تھے اور پھر جوان ہوئے اور پھر جوانی آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگی اور بڑھاپا آنے لگا، جو بچپن میں ہمارے بغیر سوتے نا تھے وہ قبروں میں جا سوئے، ان کی جگہ ہم نے لے لی اور ہماری جگہ ہمارے بچوں نے، جب ہمارے والدین ہمارے پاس بیٹھنا چاہتے تھے تب ہم دنیا داری میں مصروف رہے، ہمارا انتظار کرنے والے نا رہے اب ہم اپنے بچوں کے انتظار میں رہتے ہیں اور ہمارے بچوں کے پاس ہمارے لئے وقت نہیں، جب جوانی اور صحت تھی، نوکری تھی پیسہ تھا تب ہم سب کی توجہ کا مرکز ہوا کرتے تھے، جوں جوں یہ نعمتیں رخصت ہونے لگیں ویسے ویسے ہمارے اردگرد جمع لوگ بھی ان پرندوں کی طرح اڑنے لگے جو خزاں آتے ہی درخت سے کُوچ کرجاتے ہیں۔
ہم روزانہ سڑکوں پہ بھاگتی ایمبولنس دیکھتے ہیں وہ یا تو موت کی کشمکش میں مبتلا مریض کو لے کرچیختی چلاتی ہسپتال جا رہی ہوتی ہے یا پھر موت کے ہاتھوں شکست خوردہ انسان کی میت اس کے وراثان کے حوالے کرنے، کچھ لوگوں کو تو ایمبولنس بھی نصیب نہیں ہوتی، نرم نرم بستروں پہ سونے والے سڑک کنارے مردہ پڑے ہوتے اور کچھ ساری زندگی منرل واٹر پینے والے اچانک سے دل کے دورہ سے چل بستے ہیں۔ ہم ہر روز کسی نا کسی کی موت کی خبر سنتے ہیں لیکن مطمئن اس لئے ہوتے ہیں کیونکہ وہ موت کی خبر ہماری یا ہمارے کسی اپنے کی نہیں ہوتی، انسان نے خدا کا انکار تک کردیا مگر موت کا انکار نا کرسکا، موت کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود ہم لاپرواہی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ یہ معلوم بھی ہے کہ درختوں پہ بہار، خزاں آنے کا ایک وقت مقرر ہے مگر انسان پہ خزاں کب آجائے اس کا انسان کو علم ہی نہیں۔ ہم دنیا پہ اپنے لباس پہ مٹی کے چند ذرے برداشت نہیں کرتے جبکہ ایک وقت آتا ہے کہ ہمیں دفنانے والے ہمیں دفن کرنے کے بعد ہاتھ بھی ہماری قبر پہ جھاڑ کے چل دیتے ہیں۔
ستار العیوب رب سے دعا ہے کہ خزاں آنے سے پہلے ہمیں ہماری بہار میں ہی خزاں کی تیاری کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، اور ہمیں قبر میں اس خزاں زدہ درخت کی طرح تنہا نا چھوڑے جس پہ پرندے بھی رہنا پسند نہیں کرتے۔ آمین
جب احمدِؐ مُرسل نےرہے تو کون رہے گا