1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Hussain
  4. Victory Of Vision

Victory Of Vision

وکٹری آف ویژن

15 اگست 2021 بروز اتوار عالمی سیاسی منظرنامے پر اس صدی کا سب سے بڑا دن بن کر ابھرا۔ یہ دن تاریخ کے دامن میں ان آفاقی اصولوں کو روشناس کرا گیا جن کو جدید دور کا انسان ٹیکنالوجی کے زعم میں بھول بیٹھا تھا۔ وہ شاید سمجھنے لگا تھا کہ مادی ترقی کے بل بوتے پر شاندار دنیا بسائی جا سکتی ھے۔ مادیت پر مبنی مائنڈ سیٹ کے ہاتھوں خوبصورت رشتوں کی کہکشاں نے زوال کے خوفناک غوطے لئے، دو عظیم عالمی جنگیں اور سینکڑوں سرد گرم جنگوں نے سیکڑوں مرتبہ انسانیت کی گود اجاڑی۔ انسان نے جب بھی قدرت کے آفاقی اصولوں کی خلاف ورزی کرکے من مانی کی ھے زمانے میں رسوا ھوا ھے۔ یہی وجہ سے ھے کہ ٹاپ امریکن لیڈرشپ سے لےکر دنیا کے بڑے بڑے تھنک ٹینکس حیرت کے سمندر میں غرق ھوچکے ہیں، انھیں یہ حقیقت ہضم ہی نہیں ہو رہی کہ 86 بلین ڈالرز خرچ کرکے بنائی گئی ساڑھے تین لاکھ افغان آرمی چند دن بھی افغان طالبان کے سامنے کھڑی نہ ہو سکی۔ اس کے علاؤہ امریکن کانگریس میں کئی مرتبہ پورے پورے سیشن اس نقطے پہ ہوچکے ہیں کہ امریکہ نیٹو فورسز اور کارپوریٹ ورلڈ کے وسائل کا استعمال کرکے بھی حقیقی افغان لیڈرشپ کو سرنڈر نہیں کراسکا۔

ایسے بےشمار سوالات ہیں جو 2+2=4 کرنے والے عالمی دماغ حل نہیں کر پا رہے۔

میرے خیال میں امریکی لیڈرشپ کو یہ نقطہ آسانی سے سمجھ آ سکتا ھے اگر وہ مشہور امریکی دانشور Simon Sinek اور Noam Chomsky کو بلا کر اس آفاقی راز میں سمجھ لیں۔ ان دونوں دانشوروں کا ماننا ھے کہ انسان کا big why (مقصد) طے کرتا ھے کہ اس کا مستقبل کیسا ہوگا۔ افغان طالبان کی عظیم الشان فتح کے پیچھے دراصل یہی big why کا راز کارفرما ھے۔

امریکی لیڈرشپ، نیٹو فورسز اور اس کے افغان اتحادی خالصتاً دنیاوی مفاد کیلئے افغان سرزمین پر اترے جبکہ افغان طالبان تنخواہ و مفادات سے ماورا خالصتاً اللہ پاک کی رضا اور سلطنت اسلامیہ کی بحالی کیلئے میدان عمل میں اترے۔ مقصد کی عظمت نے افرادی قوت و وسائل کی کمیابی کو Overcome کیا کیونکہ اللہ پاک کا فرمان عالی شان ھے کہ جب مرد مومن میدان میں اترتا ھے تو ھم اس کا ہاتھ، کان اور آنکھ بن جاتے ہیں جن سے وہ امامت کا جھنڈا بلند فرماتا ھے۔ یہی وہ راز ھے جو دنیا کے نام نہاد نقاد، دانشور اور اعلی دماغ سمجھنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ نظر آنے والی چیزوں پر believe رکھتے ہیں، انھیں مرد مومن، مرد حق کے قوت ایمانی کا انداز ہی نہیں ہوسکتا۔ عالمی میڈیا سکتے میں مبتلا ھے کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک چھوٹی سی جماعت جن کے پاس بظاہر اسلحہ و ساز وسامان انتہائی معمولی ھے لیکن انہوں نے خود کو سپر پاور اور ناقابل تسخیر سمجھنے والے ممالک کو سرعام سرنڈر کروا دیا ھے، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی امریکی صدر جو بائیڈن کے بیانات کی ویڈیوز جو وہ اپنی قوم کو مطمئن رکھنے کیلئے دے رہے ہیں میں شکست واضع دیکھی جاسکتی ھے جس میں وہ وہ اپنی قوم کو Convince کرنے ناکام کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اب ھم اپنے بچے افغانستان کے خوفناک خونی میدان میں قربان نہیں کرسکتے لہذا ھم نے افغانستان سے withdrawal کا فیصلہ لیا ھے لیکن امریکی قوم مسلسل اپنے نام نہاد لیڈروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ھے، لیڈرشپ کا خوفناک بحران پیدا ہوچکا ھے۔ عام امریکی شہری اپنی لیڈرشپ پر یقین کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتا۔ یہی وہ نقطہ ھوتا ھے جو قوموں کو مفاداتی گروہوں میں تقسیم کر دیتا ھے۔

سچ کہا جاتا ھے کہ کامیابی کو ہر کوئی own کرلیتا ھے جبکہ ناکامی کی ذمہ داری لینے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔ افغانستان کے معرکے میں بھی یہی کچھ ہوتا نظر آرہا ھے۔ آج بڑے بڑے دانشور طالبان کی معرکتہ الآرا کامیابی کے پیچھے مختلف ممالک اور ایجنسیز کا ہاتھ تصور کررہے ہیں جو ان کی رائے ہوسکتی ھے جس کا وہ پورا حق رکھتے ہیں۔ لیڈرشپ کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میری عاجزانہ رائے یہ ھے کہ افغانستان کا عظیم معرکہ خالصتاً کامل ایمان کا معاملہ ھے جس کا لیڈنگ رول Leading role اور پورے کا پورا کریڈٹ " افغان طالبان" کو جاتا ھے۔ اس کے علاؤہ باقی سب طاقتیں اور سپورٹ ثانوی درجہ رکھتی ہیں۔

اتنی بڑی کامیابی ممکن ہی نہیں تھی اگر افغان قوم طالبان کو خوش آمدید نہ کہتی، یہ بنیادی طور پر افغان قوم کا اشرف غنی کے خلاف عدم اعتماد ھے کہ اس نے افغان قوم کے دل جیتنے کی بجائے عالمی سامراج کی چاکری کی اور آج انتہائی اذیت کے عالم میں وطن سے بےوطن ہونا پڑا، آج تاریخ نے اشرف غنی کو شاہ ایران کی عبرت ناک لسٹ میں ڈال دیا ھے۔ روحانیت کے طالب علم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ آفاقی اصولوں کی فتح ھے، کمٹمنٹ اور وژن کی جیت ھے، قربانی اور صبر کا پھل ھے، یقین کامل کی راہ ھے۔

جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے انھیں منزلوں نے پناہ دی

جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پہ بھٹک گئے

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar