Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Hussain
  4. Pakistani Hairat Angez Qaum

Pakistani Hairat Angez Qaum

پاکستانی حیرت انگیز قوم

انسان کی بطور اشرف المخلوقات حیرت انگیز خوبی یہ ہے کہ وہ خود کو بدل کر اپنا نصیب بدل سکتا ہے۔ مستقبل ان دیکھا (Unseen) ہوتا ہے، یہ انسان کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ٹارگٹس targets کی طرف بڑھنے سے پہلے مطلوبہ راستے اور اس میں درپیش چیلنجز کی جانکاری لے کر قدم بڑھائے۔ جب بھی آپ Unseen کی طرف move کرتے ہیں تو بطور انسان آپ سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن عظیم ہوتے ہیں وہ انسان جو ماضی سے سیکھ کر لمحہ موجود میں اپنا پورا پوٹینشل The best استعمال کر کے بہترین فیصلے لیتے ہیں۔ یہی وہ مثالی حکمت عملی ہے جسے دانشور کامیابی کا حقیقی راز قرار دیتے ہیں۔

تاریخی اعتبار سے وطن عزیز پاکستان کی عمر سات دہائیاں ہیں لیکن انصاف کے اعتبار سے اس خطے کے باشندے صدیوں سے امن و خوشحالی کو ترس رہے ہیں۔ تخت و تاج کے خوفناک کھیل میں اکثریت کو نظر انداز رکھا گیا۔ مٹھی بھر بے اصول طاقتور طبقے نے Divide & rule کے ذریعے معاشرے کو تقسیم رکھا تاکہ ان کا راج چلتا رہے۔ ارتقائی عمل میں قدرت نے وہ حیرت انگیز طاقت رکھی ہے جو شعوری تحریک کی وجہ سے معاشرے کو مسلسل باشعور کر کے انہیں ووٹر زون سے لیڈر شپ زون میں ٹرانسفارم کرتی ہے۔

اس ارتقاء میں دانشور طبقہ مثالی کردار کا حامل ہوتا ہے اور یہی مثالی کردار تحریک پاکستان میں مسلمان دانشوروں نے ادا کیا۔ ایک طویل لسٹ ہے جس میں علمائے حق، صحافی، اساتذہ اور سیاستدانوں نے کلیدی کردار ادا کر کے 1857 کی جنگ آزادی سے شروع ہونے والا سفر بالآخر اللہ پاک کے فضل و کرم سے 14 اگست 1947 میں مکمل ہوا اور پاکستان کی صورت میں مسلمانان ہند کو عظیم وطن ملا۔

تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے شاہ ولی اللہ، سر سید احمد خان، ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے عظیم Vision پر لبیک کہتے ہوئے ہر قسم کی قربانی کیلئے خود کو پیش فرمایا۔ بنیادی طور پر عدل و انصاف کا مثالی خواب اس خطے کی اکثریت کیلئے motivation کا باعث بنا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان کے اندر کوئی نئی حکومت بنتی یا ٹوٹتی ہے تو عام آدمی سمجھتا ہے کہ میرا وہ خواب پورا ہونے جا رہا ہے جو میری کئی نسلیں صدیوں سے دیکھتی آئی ہیں۔

افسوس انگریزوں سے آزادی لینے کے باوجود بھی ہمارا وہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ ہمارے بزرگوں کو 90 سال لگے پاکستان بنانے میں لیکن 75 سال گزرنے کے باوجود ہم آج بھی کانگریسی وزارتوں والی زندگی جی رہے ہیں جس میں ظالم طاقتور تھا، مظلوم سائل کو دھکے ملتے تھے، بنیادی ضروریات کا خوفناک فقدان تھا اور آج بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔

یہاں امید افزاء پہلو یہ ہے کہ جس طرح ہمارے بزرگوں نے مسلسل امید کے دامن کو یقین کامل کی طاقت سے جوڑ کر منزل پائی، بالکل same to same یہی صورتحال ہماری ہے۔ ہم پر ڈکٹیٹرشپ بھی مسلط رہی اور ہمیں وڈیروں، سرداروں اور بے اصول طاقتور طبقے نے بھی نوچا لیکن وہ ہم سے ہمارا خواب Vision نہ چھین سکے۔ یہی وجہ ہے جب بھی کسی نے وہ نعرہ لگایا جس میں ہمیں اپنے خواب کی تعبیر ملنے کا شائبہ تک ہوا تو پوری قوم نے اس آواز کو ویلکم کیا، وہ چاہے ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو تھے یا آج کے لمحے میں عمران خان صاحب ہیں۔

پاکستان کی اکثریت چاہتی ہے کہ کوئی ایسا لیڈر ہو جو انہیں پاکستان کی طاقتور اشرافیہ کے چنگل سے حقیقی آزادی دلوائے، ایسی آزادی جس میں سائل کا پاکستانی ہونا کافی ہو، اسے انصاف ملے، دال روٹی کیلئے لائنوں میں رسوا نہ ہونا پڑے، ان کی ٹاؤٹ مافیا سے جان چھوٹے۔ پاکستانی قوم خراج تحسین کی مستحق ہے کہ سات دہائیوں پر محیط سخت ترین حالات بھی ان کا حوصلہ و ہمت نہیں توڑ سکے اور یہی کسی بھی قوم کی حقیقی طاقت ہوتی ہے۔ ارتغرل غازی کا مشہور قول ہے:-

"جو قوم خواب نہیں دیکھتی وہ زمانے میں اونچا مقام بھی نہیں پا سکتی"۔

پنجاب میں 20 حلقوں میں ہونے والے انتخابات اس دلیل کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ قوم نے عمران خان کی بیڈ گورننس اور ناقص کارکردگی کے باوجود خوددرای کے بیانئے کو خوش آمدید کہا کیونکہ قوم ملکی حالات کا ذمہ دار انہی عناصر کو سمجھتی ہے جو مسلسل حکومت میں رہے ہیں۔

جناب عمران خان صاحب آپ اس قوم کی قدر کریں اور الیکٹیبلز کے چنگل سے خود کو آزاد کروائیں۔ آپ کو یقیناً اندازہ ہو گیا ہو گا کہ آپ کی حقیقی طاقت Vision کے ساتھ کھڑا ہونا ہے نہ کہ الیکٹیبلز کے ساتھ۔

ہماری آپ سے عاجزانہ ریکوئسٹ ہے کہ آپ پاکستانی نوجوان پر اسی طرح اعتماد فرمائیں جسے نوجوانوں نے آپ پر کیا اور نوجوان کو محض ووٹر کی سطح سے Leadership Zone لائیں۔ عظیم نظریہ ہی اصل طاقت ہوتا ہے، ادھار طاقت انسان کو ذلت کی پاتال میں گرا دیتی ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ Youth کے ہاتھ لیڈر شپ کا جھنڈا تھما کر تاریخ میں امر ہونا چاہتے ہیں یا پھر ماضی کو دہرا کر الیکٹیبلز کو اپنی ٹیم میں لیتے ہیں۔ بےشک انسان اپنے فیصلوں کی پیداوار ہوتا ہے، خان صاحب قوم تو غیرت کا علم بلند کر چکی ہے۔

کیا آپ بھی یہ عظیم فریضہ سر انجام دینے کیلئے تیار ہیں؟

Check Also

Kahani Aik Deaf Larki Ki

By Khateeb Ahmad