Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Akhtar Hussain/
  4. Main Ne Apni Zindagi Se Seekha

Main Ne Apni Zindagi Se Seekha

میں نے اپنی زندگی سے سیکھا

وطن عزیز کے ضلع ملتان کی تحصیل جلالپور پیر والہ کے نواحی علاقہ بستی کلاب جو مجھے مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف کے بعد سب سے زیادہ عزیز ہے، کیونکہ اس سرزمین پر میری پیدائش ہوئی اور اسی سرزمین پر میرے بزرگوں کی آخری آرام گاھیں ھیں جس سے میرا اس خطے سے ویسا ھی جذباتی رشتہ ہے جو ظاھر ہے ہر انسان کا اس کے خطے سے ہوتا ہے۔ بچپن اللہ پاک کے فضل سے والدین کی محبت کے سمندر میں غوطے لگاتے گزرا، ماں کی گود میں تربیت و شفقت کا ایسا لطف ملا جو ہر لمحے مجھے Passionate رکھتا ہے، جو مجھے مشکل ترین حالات میں مثبت رھنا، چیلنج کو مواقعوں میں بدلنا اور ہر لمحے خود کو پہلے سے بہترین بنانے کا حوصلہ اور جذبہ دیتا ہے۔ میرا اپنے والدین سے عشق ہی میری اصل طاقت ہے۔

بچپن کے خوبصورت لمحات لمحوں میں گزر گئے، تعلیمی کیرئیر میں سکول سے کالج کا دورانیہ ایک نئے جہان سے متعارف کروا گیا جس میں زندگی کو نئے رنگ اور معنی ملے۔

صحیح کونسلنگ کی کمی کے پیش نظرحادثاتی طور پر کامرس کالج جوائن کیا جس میں اللہ پاک کے عطا فرمائے ہوئے پوٹینشل کا استعمال کرکے I com آئی کام پارٹ1 میں ملتان رینج میں اکاؤنٹنگ کے سبجیکٹ میں ٹاپ کیا، رزلٹ آنے کے فوری بعد میں نے اپنی فیلڈ کی چوٹی تلاش کرنے کا فیصلہ کیا کہ میری ڈائریکشن کیا ہوگی۔ اس سلسلے میں ملتان کے چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کے بڑے بڑے ادارے وزٹ کرنے شروع کئے جہاں سے مجھے اکثریت نے یہی بتلایا کہ اس فلیڈ کی peak چارٹرڈ اکاؤنٹینسی ہے، لیکن اس کیلئے آپ کو کئی سال مسلسل صبر، ھمت، محنت اور یقین سے چلنا ہوگا جسے آج کی جدید ریسرچ Compound effect کا نام دیتی ہے۔ یہی سے میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ شروع ہوا کیونکہ میں جلد سے جلد منزل پانے کا خواھش مند تھا جو میری کامیابی کی سائنس کے حوالے سے لاعلمی کا نتیجہ تھا کہ میں نے آئی کام پارٹ1 ٹاپ کرنے کے باوجود study کو نامکمل چہوڑنے کا فیصلہ لیا، جس نے میرا سفر انتہائی لمبا کردیا اور میرے پورے کیرئیر پر سوالیہ نشان لگا دیا جس کو میں آج تک re-fill کرنے کی مسلسل جدوجہد کررھا ہوں۔

میرے ایک فیصلے نے مجھے motor way سے لنک روڈ پر لاکھڑا کردیا۔ میں نے اپنے آپ کو جلد کامیاب بنانے کیلئے سرکاری جاب کا ٹریک چنا جبکہ میرے کلاس فیلوز پروفیشنل بننے کی شاھراہ پر چلتے رہے اور بالآخر کامیابی کے مینار بن گئے۔ اس کے برعکس مجھے وقت سے پہلے secure ہونے کی خواھش نے وقتی طور پر تو کسی حد تک ریلیف دیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے احساس زیاں شدت سے ستانے لگا کیونکہ میری لرننگ اور گروتھ مسلسل متاثر ہونے لگی کیونکہ میرا passion اور profession مختلف ہونے کی وجہ سے زندگی قید خانے جیسی لگنے لگی۔ اس Guilt کو ختم کرنے کیلئے میں نے اپنا Vision نئے سرے سے revisit کرنا شروع کردیا، اس شعوری سفر میں جناب جاوید چودھری صاحب کی موٹی ویشنل تحریریں پڑھ کر شعوری تربیت کا آغاز ہوا، مجھے ایسے لگا کہ میں re-born ہورھا ہوں۔

میرے محترم استاد قاسم علی شاہ صاحب کی آغوش نے مجھے میرے اندر سے ملوا دیا، میرے والدین کی دعائیں رنگ لائیں جن کے صدقے میں de-track سے شعوری گروتھ کی شاھراہ پر چلنے کے دوبارہ قابل ہوا۔ محترم قاسم علی شاہ صاحب سے مل کر احساس ہوا کہ اگر آپ کو حقیقی معنوں میں احساس زیاں ہو تو قدرت آپ کو ضرور نوازتی ہے جس کا میں خود گواہ ہوں۔ ان عظیم شخصیات کی mentoring نے میرا paradigm-shift کرکے مجھے کلیریکل مائنڈ سیٹ سے نکال کر لیڈرشپ کے ٹریک پر شفٹ فرمایا۔ میں نے self-discovery کے ذریعے اپنے حقیقی پوٹینشل کو پہچانا جس سے جڑ کر مجھے اپنے آپ پر فخر ہونے لگا کہ قدرت نے مجھے اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کی پیاری امت کا حصہ بنایا ہے۔ مجھے اپنے passion کا شعور ملا جس سے متعارف ہوکر میں نے ماضی سے سیکھ کر ایک بہترین پروفیشنل بننے کی ھمت پائی جس کیلئے میں اپنے محسنوں کا شکرگزار ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ابھی مجھے کافی لمبا سفر کرنا ہے جس کیلئے میں شعوری طور پر انشاءاللہ تیار ہوں کیونکہ مجھے اب زندگی کے معنی سمجھ آنے لگ گئے ھیں۔ مجھے حضرت امام مالک رح کا حکم اب سمجھ آیا ہے جس میں وہ فرماتے ھیں: انسان کی دو پیدائشیں ھیں۔

(1) جب وہ ماں کے پیٹ سے دنیا میں تشریف لاتا ہے۔

(2) دوسری وہ ہے جس میں انسان کو یہ شعور آتا ہے کہ وہ اس دنیا میں آیا کیوں ہے؟

ایک مشہور قول ہے جو انسان کو اندر سے معطر کردیتا ہے: اگر سب کچھ کھونے کے باوجود بھی آپ کے اندر کچھ پانے کا حوصلہ موجود ہے تو آپ کو مبارک ہو آپ نے کچھ بھی نہیں کھویا۔

میں نے اپنی لائف اسٹوری سے سبق سیکھا کہ زندگی میں ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے جو آپ کو لازمی ادا کرنا پڑتی ہے، یہی قربانی آپ کو لینے والے سے دینے والہ، ووٹر سے لیڈر اور منیجر سے ملٹی نیشنل کمپنی کا کنٹری ھیڈ بنا دیتی ہے، شارٹ کٹ، جلدی بازی، بےقراری اور بے یقینی آپ کو اندر سے اُجاڑ دیتی ہے۔ اگر مدینہ شریف کے فروٹس کھانے ھیں تو جناب آپ کو مکہ شریف کی تیرہ سالہ زندگی تو گزارنا ھی پڑے گی۔

جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے انھیں منزلوں نے پناہ دی

جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پہ بھٹک گئے

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi