Kamyab Professional Banne Ka Raaz
کامیاب پروفیشنل بننے کا راز
جان سی میکسویل سے لےکر ٹونی روبنز تک، ایڈورڈ ڈی بونو سے فیض حسن سیال تک، قاسم علی شاہ سے قیصر عباس تک آج کی دنیا کے چمکتے ستارے ہیں جنہوں نے سوچنے کا انداز بدل دیا۔ جن سے ٹریننگ کے کر فرد ورکر سے CEO اور محض ووٹر سے ملک کے سربراہ بننے کا Vision بناتا ہے۔ جو انسان کو INSIDE OUT اپروچ کے ذریعے قیمتی بن کر زمانے کو عظیم شاھراہ پر چلنا سکھا رہے ہیں۔
جو فرد کو"دیہاڑی والی طرز فکر سے لیڈر شپ زون"میں داخل ہونے کی دانش دے رہے ہیں۔ جن سے مل کر انسان اندر سے re born ہوجاتا ہے۔ اسے یقین ہونے لگتا ہے کہ میں کتنا اہم اور قیمتی انسان ہوں۔ اس کے اندر سے وہم، ناامیدی، دوسروں سے فضول جیلس ہونا اور نفرت کی جڑوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ میرے دل میں ہمیشہ یہ تڑپ رہی کہ ایسی شخصیات سے ملو، پڑھو اور سنو جن سے زندگی گزارنے کا مثالی درس ملے۔
میرا یہ جزبہ مجھے ان شخصیات کے قریب لایا۔ میں چاہتا تھا کہ کوئی ایسی عظیم شخصیت ملے جس سے میں اسلام کے آفاقی اصولوں کو آج کی طرز زندگی میں اپناناسیکھ سکوں۔ میں نے جب لیڈرشپ پر جان سی میکسویل کو پڑھا تو مجھے یقین ہوگیا کہ دنیا کے بڑے اسپیکرز اور رائٹرز سیرت رسول ﷺ سے روشنی لےکر زمانے کے استاد بن چکے ہیں۔ ان کی یونیورسل ریسرچ انہیں اسلام کے قریب لائی۔
انہوں نے جدید دور جسے ڈیجیٹل اور نالج بیسڈ اکانومی کا دور کہاجاتاہے۔ اس میں پروفیشنلز تیار کرنے کےلئے جو چارٹر تیار کیا وہ اسلام کی روح سے لیا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ملٹی نیشنل کمپنیز کے CEO's اسلام کے اصولِ تجارت، معیشت اور تربیت اپنا کر پوری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔ ان فارچون کمپنیز جن کا بجٹ 58مسلم ملکوں کی GDP سے زیادہ ہے وہاں ایمانداری، محنت، جذبہ، وفاداری، قربانی، گر کر پھر سے کھڑے ہونے کا حوصلہ، ساکھ، Visionary ہونا اور سچ بولنا بہترین شعار سمجھے جاتے ہیں۔
وہاں شارٹ کٹ، دھوکہ، ناامیدی، کمزور قوت ارادی اور کسی کو نقصان پہنچاکر آگے بڑھنا جرم تصور کیاجاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب ہمارے پاس زندہ لیڈرشپ آپ سرکار ﷺ کی صورت میں موجود ہے جن کو انفرادی، اجتماعی، قومی اور ورلڈ لیول پر اپنا کر ہم اپنا کھویا ہوا مقام پاسکتے ہیں تو کیوں ہم محرومی اور غلامی والی طرزِ زندگی گزار رہے ہیں؟
حالانکہ امریکی سکالرز آپ سرکار ﷺ پر ریسرچ کرکے اپنے معاشروں میں بہترین لیڈرز، معیشت دان، entrepreneurs اور بہترین پروفیشنل بنا چکے ہیں۔ اسٹیفن آر کوئے کی بیسٹ سیلر کتاب The seven habits of highly effective people جس کی ملین کاپیاں پوری دنیا میں خریدیں جاچکی ہیں، اس کتاب میں اسلام چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر ہم وطنِ عزیز کو واقعی مدینہ کی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پھر اپنی قومی زندگی کی ترتیب بھی وہی اپنانا ہوگی جو ریاستِ مدینہ کی تھی۔
ہمیں پتہ ہونا چاہئیے کہ ریاستِ مدینہ کی بنیادوں میں "مکہ شریف کی تیرہ سالہ کردار سازی والی زندگی"بھی تھی جس کو اپنا کر ہی ہم مدینہ کے فروٹس کھاسکتے ہیں۔ ہمیں سچائی، ایمانداری، وفاداری، ساکھ، قربانی، صبر، مستقل مزاجی اور علم کے حصول کو بطور قوم اپنانا ہوگا۔ جس لمحے ہم نے یہ طرزِ زندگی اپنا لیا پھر ہمیں اپنی معیشت چلانے کےلئے اپنی sovereignty(خودمختاری) پر سمجھوتہ (Compromise)نہیں کرنا پڑے گا انشاءاللہ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں
افسوس صد افسوس شاھین نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارے
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے