Jhompri Walay Ko Khush Haal Banao
جھونپڑی والے کو خوشحال بناؤ
ونسٹن چرچل برطانیہ کا دانش ور سیاستدان مانا جاتا ھے، تاریخ اُسے Statesman کے لقب سے جانتی ھے۔ وہ عام انسان کے حالات بدلنے کیلئے سیاست میں آیا حالانکہ وہ لٹریچر کا شائق تھا، وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ یہاں دو انگلینڈ ھیں، ایک وہ جو محلات پر مشتمل ھے جس میں اس ملک کی ایلیٹ اور رولنگ کلاس رھتی ھے اور دوسرا وہ انگلینڈ ھے جو جھونپڑیوں (Cottage)پر مشتمل ھے جس میں ہر لمحے بھوک و افلاس کے ڈیرے ھیں، میرا ماننا یہ ھے کہ اگر ھمارے ملک میں جھونپڑی والہ خوشحال اور محفوظ نہیں تو پھر انگلینڈ کے محلات بھی حالات کے جبڑوں کا شکار ھوجائیں گے۔
چرچل نے کمیونٹی کو باشعور کرکے وہ مثالی ریفارمز کیں جس سے آئین و قانون انصاف کے اصولوں کی روشنی میں طاقتور ھوا، برطانیہ میں بادشاھت دیوار کے ساتھ لگ گئی، ادارے شخصیات کی بجائے آئین کے جوابدہ بنے جس سے انگلینڈ دنیا کے نقشے پر ترقی یافتہ ملکوں میں نمبر 1 بن کر اُبھرا اور یہ اس وجہ سے ممکن ھوپایا کہ محلات والوں نے جھونپڑی والوں کو mainstream پارلیمنٹ تک پہچنے کا راستہ دیا، ہر فورم پر عام شہری کی رسائی ممکن ھوئی جس سے ایجادات، شعور، امن، خوشحالی اور لیڈر شپ کا نیا جہان آباد ھوا۔
تاریخ گواہ ھے کہ جہاں بھی اکثریت کو روند کر اقلیت کے مخصوص طبقے نے عیاری، مکاری، پروپیگنڈہ اور ظلم کا استعمال کرکے اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جسارت کی وھاں خوفناک انقلاب نے رولنگ کلاس کو کچل کررکھ دیا۔ ماضی بعید میں انقلاب فرانس، انقلاب روس، انقلاب چین، امریکن سول وار اور انقلاب ایران عبرت ناک خون آلود مثالیں ھیں جس میں ظالم طبقے کی لاشیں کئی کئی دن چوراھوں پر لٹکی رھیں اور اُن کے خاندانوں کو گِدھ اور جانور نوچتے رھے۔ ماضی قریب میں USSR کا دھڑن تختہ ھوا، امریکہ پوری دنیا میں رُسوا ھوا، انڈیا اپنے بوجھ تلے دب چکا ھے، صدام حسین اور معمر قذافی جن کا اپنی ریاستوں میں سِکہ چلتا تھا اپنی عوام کے ھاتھوں اندر کی بغاوتوں کا شکار ھوکر ماضی کا سانحہ بن چکے ھیں۔
آئیں ھم جائزہ لیتے ھیں کہ وہ اس خوفناک انجام کا شکار کیوں ھوئے؟
(1)انھوں نے ارتقا کا سفر روک کر اپنی قوم کو شعوری پسماندہ رکھا، پھر وھی قوم ان کے خلاف hybrid war میں آلہ کار بن کر ان کے دشمنوں کے ھاتھ استعمال ھوگئی۔
(2)انھوں نے ملک کے اداروں کو گھر کی باندی بنا کر کینسر زدہ بنا دیا، وقت آنے پر ادارے انارکی کو نہ روک سکے
(3) عوام کے پیسے سے غیر ممالک میں اپنے محلات کھڑے کئے گئے جس سے اکثریت بھوک اور ننگ کا شکار ھوگئی۔
اگر ھم وطن عزیز کا بہتر سالہ تجزیہ کریں تو حقیقت حال جان کر دل خون کے آنسو روتا ھے کہ کس طرح ایک عظیم نظریہ پر قائم وطن کو اپنے ذاتی مفادات، کُرسی کی نرگسیت اور کھوکھلے پن سے عالمی برادری میں تماشا بنا دیا گیا، دنیا پاکستان کو لاوارث سمجھ کر نوچتی رھی کیونکہ پاکستان اندر سے بُونے افراد کے ہاتھ ھائی جیک ھوچکا تھا، جعلی شخصیات نے جاگیرداری، گدی نشینی اور وڈیراازم کا لبادہ پہن کر عام پاکستان کیلئے بڑے مراکز بالخصوص پارلیمنٹ تک رسائی روک دی جس سے ملک حقیقی عوامی قیادت سے محروم رھا۔ ھمیں جمہوریت کے رکھوالے بھی جعلی ملے جنہوں نے سیاسی پارٹیوں کو کچن کیبنٹ اور پرائیوئٹ لمیٹیڈ کمپنیاں بنادیا، جنہوں نے سیاست کو اپنے کرتوتوں سے گالی بنا دیا، جنہیں ٹاپ بیوروکریسی میں Yes man پسند تھے جس سے ادارے خوشامدیوں اور نااھلوں کے ھاتھوں اپنی روح سے محروم ھوگئے جس سے عام آدمی اپنے زخم چاٹتا رھا اور مسیحا اُسے ڈستے رھے۔ دوسری طرف اس کرپٹ ٹولے کو ھٹانے کے نام پر بھی ھمیں اندر سے زیرتعمیر عناصر ملتے رھے جن کے مارشل لاز سے عوام کو شاید وقتی ریلیف تو ملا ھو لیکن بعد میں اُن سے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، ق اور ناجانے کیاکیا نکلتا رھا جس سے وطن عزیز پر غیر یقینی کیفیت کے منحوس سائے چھائے رھے۔
آج ھم 2020 میں کھڑے ھیں، اللہ پاک کے کرم سے پاکستان عالمی برادری میں پورے وقار کے ساتھ کھڑا ھے جس کا ثبوت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے موقف کو پوری ذمہ داری کے ساتھ تسلیم کیا جانا ھے، CPEC کا دوسرا مرحلہ شروع ھوچکا ھے، عالمی سرمایہ کار پورے جذبے کے ساتھ وطن عزیز میں انویسٹمنٹ کررھے ھیں۔ پاکستانی قوم اُمید سے بھرپور زندگی گزار رھی ھے۔
بدقسمتی سے آج ایک دفعہ پھر پاکستان میں سیاسی استحکام کو عدم استحکام میں بدلنے کی سازشیں عروج پر ھیں جو انشاءاللہ ناکام ھونگی کیونکہ قوم اب باشعور ھوچکی ھے، تمام ادارے ایک پیج پر ھیں۔ یہ طے ھے کہ پاکستان اب مزید immaturity کا متحمل نہیں ھوسگتا۔ ضرورت اس اَمر کی ھے کہ حکومت وقت دِل بڑا کرکے اپوزیشن کے تحفظات دور کرئے کیونکہ معاشی استحکام کی ماں سیاسی استحکام ھوتا ھے تاکہ ملک استحکام کی شاھراہ پر پورے وقار سے چل سکے۔ اِن اقدامات سے جھونپڑی والہ پُر وقار زندگی گزار سکے گا بصورت دیگر محل بھی سلامت نہیں رھیں گے۔