Inteqam Tabdeeli Ko Nigal Chuka Hai
انتقام تبدیلی کو نگل چکا ہے
جناب آپ اپنے ساتھ کیا لے کر جارھے ہیں؟ جیلر نے نیلسن منڈیلا سے رہائی کے لمحوں میں بڑے کرب کے عالم میں پوچھا۔ "میں اپنے ساتھ صبر، معافی دینے اور مانگنے کا حوصلہ، خود کو پہلے سے زیادہ مثبت رکھنے کا جذبہ اور اپنی قوم کیلئے مثالی وژن لےکر جیل کی سلاخوں کو خیر باد کہہ رہا ھوں"۔
ستائیس سال قید و بند کی صعوبتوں میں گزارنے والے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کے پاس پورا اختیار تھا کہ وہ چاھتا تو رہائی کے بعد اپنے حریفوں کو چن چن کر سزا دیتا لیکن اس نے اپنی قوم کو روشن مستقبل دینے کیلئے اپنی انا اور انتقام کے خوفناک منفی جذبے کو قربان کردیا، حتی کہ جب ان سے درخواست کی گئی کہ آپ کی سیکورٹی پر ھم اپنی نسل کے سولجر تعینات کرنا چاھتے ہیں تو انہوں نے تاریخی حکم فرما کر تاریخ رقم کردی:-
"جب آپ مجھے یہ کہتے ہیں کہ میں وائٹ نسل کے گارڈز کو ھٹا کر بلیک نسل کے نوجوان تعینات کرنے کا حکم دوں تو بنیادی طور آپ مجھے Vision پر سمجھوتہ کرکے اسی نسلی تعصب (apartheid) کی طرف دھکیلنا چاھتے ہیں جس کینسر کے خلاف ھم نے لمبی جدوجہد کی ھے"
عظمت بھرے ایک فیصلے نے افریقہ کو خوفناک خانی جنگی سے بچا کر امن کا گہوارہ بنا دیا۔ زمانے میں سپر پاور کہلانے والی قوموں کے لیڈر بھی نیلسن منڈیلا کو اپنا لیڈر اور mentor تسلیم کرنے پر مجبور ھوئے، حتی کہ امریکہ صدور باراک اوباما اور بل کلنٹن نے وہ زندان دیکھنا اپنے لئے اعزاز سمجھا جس میں منڈیلا قید ھوئے۔ اسے کہتے ہیں قربانی بھرا راستہ جس پر آپ نے بڑے cause کیلئے بطور خود کو بطور رول ماڈل پیش کرنا ھوتا ھے۔ ثابت ھوا کہ مشن جتنا بڑا ھوا لیڈر کو اندر سے اتنا ھی وسعت بھرا دل، گردہ چاھے ھوتا ھے۔
اس کے برعکس جو وژن کی شاھراہ کو چھوڑ کر انتقامی انداز فکر اپنا لیتے ہیں وہ زمانے میں عبرت بن جاتے ہیں۔ حضرت واصف علی واصف رح کا قول مبارک ھے: "بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتے"۔
بدقسمتی سے پاکستان کی پوری تاریخ چھوٹی منزل کے مسافروں سے بھری پڑی ھے جنہیں دیہاڑی دار مزدور کی طرح آج کے لمحہ میں ھی اقتدار کا حصول عزیز رہا۔ اسی بےاصول مسند اقتدار کیلئے اکثریت نے سمجھوتوں کے جوہڑ میں اتر کر کرسی سنبھالی۔
عمران خان صاحب کو قوم نے سات دھائیوں سے مسلط مافیا کو کچلنے کیلئے اپنا لیڈر بنایا، دل میں جگہ دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے بائیس سال کا چیلنجز بھرا سفر جذبے و جنون سے طے کیا۔ میاں صاحبان کے ماضی میں کئے گئے کچھ فیصلوں نے عمران خان کو میاں برادران کا دشمن بنا دیا، جس میں سرفہرست جمائما خان کے خلاف چوری کا مقدمہ بھی شامل تھا۔ اس رویے نے ن لیگی قیادت کو عمران خان کی نظروں سے گرا دیا۔
اب ھونا تو یہ چاھئے تھا کہ عمران خان اپنی نفرت کو طاقت میں بدلتے، خود کو عظیم وژن کے ساتھ connect کرکے عام آدمی کا درد بانٹتے، ملکی اداروں کو empower فرما کر شخصیت پرستی کا سحر توڑتے، ایجوکیشن اور سروسز ریفارمز کو ترجیح نمبر 1 انصاف عوام کی دہلیز پر لایا جاتا تاکہ معزز شہری شعوری سفر طے کرکے لیڈرشپ کے Zone میں داخل ھوجاتا۔
عمران خان صاحب نے گڈ گورننس کو یقینی بناکر عوام کا دل جیتے بغیر اپنے سیاسی حریفوں کو ٹارگٹ کرنے کا جو فیصلہ کیا اس نے حکومت کو ڈی ٹریک کردیا ھے۔ ریفارمز کئے بغیر گرفتاریاں محض وقت کا ضیاع ثابت ھورہا ھے۔ مجھے لگتا ھے عمران خان صاحب نے وژن کی شاھراہ کو چھوڑ کر انتقامی انداز فکر کو اپنا کر خود کو کارنر کرلیا ھے کیونکہ قوم کو اب پکڑ دھکڑ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رھی کیونکہ انہیں ریفارمز اور ریکوری سے غرض ھے۔ عوام کو ایسی اصلاحات درکار ہیں جس سے ان کے حالات بدلیں۔ Rule of law ھو، انصاف پر مبنی احتساب معاشرے کیلئے بائنڈنگ فورس کی حیثیت رکھتا ھے، بغیر انصاف کے معاشرے مردہ ھوجایا کرتے ہیں۔ کاش کہ آپ نے انتقامی انداز سیاست کو پس پشت ڈال کر عوامی فلاح کو نمبر1 ترجیح بنایا ھوتا تو قوم آپ کو اس طرح اپنے دل کی مسند سے نہ نکال پھیکتے۔