Daro Us Waqt Se
ڈرو اس وقت سے
ڈرو اس وقت سے، جب پاکستانی قوم تمھیں حقیقی معنوں میں پہچان کر تمھارا اصلی چہرہ دیکھ لے گی۔ جب شعوری ارتقاء انھیں اتنا قابل بنادے گا کہ، وہ پردے کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت پا لیں گے۔ جب ان کا یقین بےیقینی کا روپ دھار کر، تمھارے سامنے آھنی دیوار بن جائے گا۔ جب انھیں اس خوفناک کھیل کی سمجھ آ جائے گی، جو ان کی نسلوں کے ساتھ کئی دھائیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔
جب وہ سیاست کی بھول بھلیوں میں قائم ان تعلقات کے آکٹوپس کو دیکھنے کی بصیرت پالیں گے، جو مخدوموں کو قریشیوں سے، گیلانیوں کو پگاڑو سے، ترینوں کو خاکوانیوں کی رشتہ داری میں پروتا ہے۔ جو ایک بیوروکریٹ کو ممبر پارلیمنٹیرین کا، جرنلسٹ کو جوڈیشل آفسر، انڈسٹریالسٹ کو ملٹری پرسن کا رشتہ دار بناکر طاقتور بناتا ہے، جو انھیں They are oneبناتا ہے۔
ڈرو اس وقت سے جب عوام پولیس، سیاستدان اور انڈر ورلڈ کے کنکشن کو حقیقت مان لیں گے۔ جب انھیں ڈاکٹر، کیمسٹ اور لیبارٹری کا processسمجھ آ جائے گا۔ جب وہ پنچائتی، پولیس اور ٹاؤٹ مافیا کو پہچان لیں گے۔ جب انھیں جعلی سیاستدان، گدی نشین، اور جمہوریت کے نام پر مسلط سیاسی جاگیروں اور سول آمروں کی حقیقی معنوں میں شناخت ہوجائے گی۔ جب ان کے سامنےملٹری ڈکٹیٹرز کی گود میں پلنے والی جعلی سیاسی لیڈرشپ کا چہرہ بےنقاب ہوگا۔
جب عوام کو ایک پیج پر ہونے کا مطلب سمجھ آئے گا۔ جب انھیں ٹرانسفر پوسٹنگ کے ذریعے اپنا بندہ لگاؤ پالیسی کا عکس واضع ہوگا، اور جب انھیں سیاسی عدم استحکام کا کھیل سمجھ آئے گا۔ تو مجھے یقین ہے انشاءاللہ وطن ِعزیز پر مسلط کئی خاندان بےروزگارہوجائیں گے۔ سیاسی آقاؤں کی چاکری کرنے والے بیوروکریٹس ہمیشہ کیلئے اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ سیاسی اور عسکری ونگز ختم ہو جائیں گے۔
کئی گدی نشین بےنقاب ہوکر اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔ تھانیدار، پنچائتی اور ٹاؤٹ مافیا جیلوں میں ہونگے۔ جعلی دانشور زوال پذیر ہونگے۔ جعلی پروفیشنلز کو ریڈسگنل مل جائے گا۔ کوئی بےاصول کرسی اور اقتدار کے مزے میں قوم کو گروہ در گروہ تقسیم کرنے کی جرات نہیں کرےگا۔ کوئی غریب عوام کو چار چار کروڑ کی گاڑیوں سے کچلنے کا حوصلہ نہیں کرپائے گا، اور کوئی بھی طاقتور اپنی مرضی کی طاقت لانے اور گرانے کی ہمت نہ کرسکے گا۔
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بڑے سے بڑا عہدیدار، سردار اور حکمران ارتقاء (عوامی شعور) کا سفر روک نہیں پایا۔ جس نے بھی اللہ پاک کے آفاقی نظام سے موڑ موڑنے کی کوشش کی، پھر زمانے نے یہ منظر بھی دیکھا کہ منہ موڑنے والوں کے منہ ہی نہ رہے۔ آج بھی فرعون کی لاش مصر کے ساحل پر عبرت کا منظر پیش کر رہی ہے۔ شداد، یزید اور نمرود کی قبروں کے نشان تک مٹ چکے ہیں۔ تاریخ آپ کو پکار پکار کر خبردار کر رہی ہے کہ، اگر آپ ڈکٹیٹر ہیں تو Cromwellکا انجام پڑھ لو۔ آپ بادشاہ ہوتو، شاہ ایران اور حسنی مبارک کا رخت سفر دیکھ لو۔
آپ سول آمر ہوتو، معمر قذافی اور صدام حسین کو دیکھ لو۔ سوویت یونین کب کا قصہ پارینہ بن چکا۔ تاج برطانیہ کب کا بےوقار ہوچکا۔ خود کو سپر پاور سمجھنے والا امریکہ، گھٹنوں کے بل گر چکا ہے۔ شاید ہم ہی تاریخ کا سبق بھول چکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے، اور طبل بج جائیں۔ ہم سب کو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒکے وژن کے مطابق خود کو prepareکرنا ہوگا، بصورت دیگر مورخ یقیناً ہمارا انجام عبرت ناک لکھے گا۔ کسی شاعر نے کیا خوب منظر کشی فرمائی ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ اک دم نہیں ہوتا