China Tareekh Raqam Kar Sakta Hai Agar
چین تاریخ رقم کرسگتا ہے اگر
معاشی منڈیوں پر اجارہ داری کی شدید خواھش نے امریکہ اور چین کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ھے۔ نصف سنچری سے زیادہ عرصہ تک دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے والے امریکہ کو کسی صورت بھی قبول نہیں کہ اس کی بےاصول طاقت کے سامنے کھڑے ھوکر کوئی اس سے ورلڈ سپر پاور کا ٹائٹل چھین لے۔ مغرب کے تھنک ٹینکس نے اپنی ٹاپ لیڈرشپ کو اس خطرے کا احساس تب ھی دلوا دیا تھا جب چین نے خود کو عالمی منظر نامے پر خاموشی سے معاشی لحاظ سے پھیلانا شروع کیا تھا۔ مغرب نے اپنے معاشی حریف کو کاؤنٹر کرنے کیلئے نائن الیون کے خود ساختہ سانحے کو جواز بنا کر افغانستان میں ڈیرے ڈالے تاکہ ایک طرف چین کی معاشی ناکہ بندی کی جائے تو دوسری طرف روس اور ایران کو بھی لگام ڈالی جاسکے۔ ان کی عسکری پالیسی بہرحال افغان قوم کے جذبے اور قوت ایمانی کی وجہ سے مکمل طور پر ناکام رہی۔
چین کی سب سے بڑی کامیابی تحقیق کے ذریعے عالمی مارکیٹ میں سستی ترین products فراھم کرنا ھے جس سے پوری عالمی منڈی پر چائنیز پروڈکٹس کا ڈنکا بج رھا ھے۔ یہ کامیابی ٹیم ورک، synergy، ان تھک محنت، مستقل مزاجی اور بااصول لیڈرشپ کی مرہون منت رہی۔
لیڈر شپ کانٹوں کا تاج ھوتا ھے جو دل گردے والے ھی اپنے سر پر سجا سگتے ھیں۔ وقت کے جبر نے چائنہ کو بہترین موقع فراھم کیا ھے کہ وہ عالمی اسٹیٹس کوء کے جبڑے توڑ کر سسکتی انسانیت کو بےرحم پنجوں سے آزاد کروا لے۔ اس مثالی role کیلئے چائنہ کو دوکاندارانہ مائنڈ سیٹ سے ٹرانسفارم ھوکر لیڈرشپ زون کا جھنڈا اٹھانا ھوگا۔ تاریخ گواہ ھے کہ 9/11 سانحے سے لےکر سیکڑوں سرد گرم جنگوں تک جو دراصل چین کی معاشی ناکہ بندی کیلئے لڑی گئیں لیکن خون مسلمانوں کا بہا۔ اسی خوفناک پالیسی کے زیر اثر آکر کئی مسلم ممالک خانہ جنگی میں جھونکے گئے تو کئی حکمران پھانسیاں لگے۔ یہ افراتفری چین کے اردگرد بالخصوص OBOR اور CPEC کی پٹی پر واقع ممالک میں پھیلائی گئی۔ پاکستان وار آن ٹیرر کی جنگ میں ایک لاکھ سے زائد شہادتیں اور بلین ڈالرز کا معاشی ڈیزاسٹر بھگت چکا ھے۔
تاریخ نے چین کو موقع فراھم کیا ھے کہ وہ protectionism) خود کو محفوظ رکھو) کی فرسودہ پالیسی کو چھوڑ کر ورلڈ لیڈر شپ کی شاھراہ کا مسافر بنے۔ جس کیلئے اسے ہر سطح پر خود کو نمایاں کرنا ھوگا۔ ھم تسلیم کرتے ھیں کہ وہ پاکستان کو سلامتی کونسل میں طاقت فراھم کررھا ھے، FATF کی ننگی تلوار کے سامنے ڈھال بن گیا ھے۔ ھمارے پیدائشی حریف کو ناکوں چنے چبوا چکا ھے لیکن حالات اس سے کچھ اور ھی تقاضا کررھے ھیں۔ چائنیز قوم کے انقلابی لیڈر ماؤزے تنگ کہا کرتے تھے: "ھم جنگ کرنے کے قائل نہیں لیکن جس مسئلے کا حل جنگ ھو اس کیلئے جنگ ناگزیر ھوجاتی ھے"۔
یہ طے ھے کہ اگر چینی لیڈرشپ نے اپنے تاریخی role کو نہ سمجھا اور سمجھوتوں کے کینسر کا شکار ہوگئے تو نہ صرف اپنے اتحادیوں سے دھو بیٹھے گا بلکہ خود اسے parasite کی طرح جینا پڑے گا۔
ایک مسلم حکمران کو اس کی ماں نے فرمایا تھا: "جب تم مرد بن کر اپنے ملک کی حفاظت نہیں کرسکے تو عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ھو"۔