Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Hussain
  4. Azadi Ke Samrat Kyun Na Mil Sake

Azadi Ke Samrat Kyun Na Mil Sake

آزادی کے ثمرات کیوں نہ مل سکے

مشہور چینی کہاوت ھے "ہزاروں میلوں کا سفر بھی پہلے قدم سے شروع ھوتا ہے"۔ قوموں کی زندگی میں قربانیاں، چیلنجز اور مشکل حالات معمول کی بات ہوتے ہیں۔ حقیقی روح مقصد اور وژن ہوتا ہے یہ جتنا بڑا ہوگا قومیں اور ملک ان چیلنجز سے کندن بن کر اتنا ہی مثالی مقام انشاءاللہ پائیں گی۔ تاریخ کا سبق یہ ھے کہ بغیر سمت کے سفر رائیگاں چلا جائے گا، کیونکہ مسافر اور آوارہ گرد میں بنیادی فرق" مقصد اور وژن"کا ہوتا ہے۔

آپ جتنے بھی پوٹینشل والے ھوں، جتنی مرضی جفاکش اور جذبے والے ھوں، اگر آپ بےسمت اور کنفیوژڈ ھیں تو آپ بےمراد رھیں گے۔ وطن عزیز جسے دنیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانتی ھے، جس کیلئے لاکھوں ماؤں نے اپنے بیٹے شہید کروائے، جس کی بنیادوں میں شہدا کا پاک خون شامل ہو، وہ گھر دنیا کے مرکز پر وہ مقام کیوں نہ پا سکا، جس کیلئے ماؤں نے اپنے لال قربان کئے تھے۔

میں چینی فلسفیوں سے متفق ھوں کہ ہزاروں میلوں کا سفر پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن ٹریلین ڈالر کا سوال یہ ھے کہ اگر یہ پہلا قدم ہی غلط سمت میں اٹھا لیا، تو ہر آنے والا لمحہ قوم اور ملک کو اپنی حقیقی منزل سے دور کر دے گا اور یہی وطن عزیز کے ساتھ ھوا۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو اسلامک آئیڈیالوجی کی بنیادوں کے مطابق تعمیر کرنے کی بجائے اسے انہی فرسودہ سسٹم آف گورننس کے مطابق چلایا گیا۔

جو آزادی سے پہلے موجود تھا۔ تاریخ گواہ ھے بابائے قوم کو بھی اس وقت مسلمانان ہند نے اپنا لیڈر تسلیم کیا جب انہوں نے ھندو مسلم اتحاد کی سفارت کاری چھوڑ کر پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ، کا نعرہ برصغیر کی فضاؤں میں بلند فرمایا۔ بابائے قوم کی رحلت کے بعد وطن عزیز پر یونینسٹ ٹولے کا قبضہ ہو گیا، جنہوں نے اپنا ایجنڈا نافذ کردیا۔

وہی جوڈیشل سسٹم، وہی ریونیو سسٹم اور وہی تھانہ پٹواری کلچر کینسر کی طرح وطن عزیز کو اپاہنج کرچکا ھے، جس نے مسلمانوں کو آزادی سے پہلے ڈسا تھا۔ جس کی بدترین مثال کانگریسی وزارتیں تھیں۔ لاکھوں ماؤں نے اپنے لال اس لئے تو قربان نہیں کئے تھے کہ آزادی کے بعد بھی حکمران اور ان کے کارندے انھیں ویسے ہی نوچیں جیسے انھیں انگریز سرکاری کے ٹٹو نوچتے تھے۔

کس کس ادارے کی بات کرو، میرا دعویٰ ھے، آپ صرف سندھ نہیں، پنجاب نہیں، بلکہ پورے پاکستان میں موجود ہزاروں تھانوں، کچہریوں، واپڈا آفسز، ریونیو اتھارٹیز، ایکسائز اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بطور سائل چلیں جائے تو آپ کو لگے گا کہ میں کسی نوآبادیاتی کالونی میں موجود ہوں، جہاں انصاف لینے کیلئے آپ کا بیوروکریٹ، ممبر پارلیمنٹیرینز اور کسی طاقتور کے ساتھ الائنس ضروری ہے۔

آپ کو سرکاری اہلکاروں کے رویے کانگریسی وزارتوں کے اہلکاروں سے ملتے جلتے ملیں گے۔ کیونکہ اسی پیٹرن پر وطن عزیز کو چلایا جا رھا ہے۔ جس مائنڈ سیٹ سے وزارتیں چلائی جارھی تھیں۔ میرے خیال میں ھم نے اسلام کے نام پر ملک لےکر اور اس میں اسلامی جمہوری روایات کا نفاذ نہ کرکے تاریخ کی سب سے بڑی بدعہدی کی ہے۔ جس کا خمیازہ ھم اور ھماری نسلیں بھگت رہی ہی۔

اگر ہم نے ماضی سے سیکھ کر خود کو اللہ پاک کے آفاقی اصول پر کاربند نہ کیا تو سات دہائیاں تو کیا ہم ہزاروں سال گزار کر بھی بےمراد رہیں گے۔ کیونکہ ہم مسلسل بدعہدی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ہم گندم بو کر کپاس اگنے کا انتظار کررہے ہیں جو محض احمقانہ پن کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مشہور یورپین سائنٹسٹ آئین سٹائن کا ماننا ہے۔

یہ پاگل پن کی انتہا ہے کہ آپ ایک ہی عمل بار بار دہرائیں اور مختلف رزلٹ کی توقع کریں۔

Check Also

Mein Kalla e Kafi Aan

By Syed Mehdi Bukhari