Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Hussain
  4. Afraad Ke Darmiyan Sard Jang

Afraad Ke Darmiyan Sard Jang

افراد کے درمیان سرد جنگ

پہلا منظر نامہ، آج سے ھمارا تمھاری پھوپھی سے کوئی واسطہ نہیں رھا کیونکہ اس نے ھم سے اپنے حصے کی ڈیمانڈ کی ھے، حد ھوگئی ھے کہ اسے زمین کا ٹکڑا اپنے بھائی سے زیادہ عزیز ھے۔ اس نے ھمیں لیگل نوٹس تک بھجوا دیا ھے۔

دوسرا منظرنامہ، بس میں نے فیصلہ کرلیا ھے کہ آپ لوگ آئندہ اپنے چچا کے گھر نہیں جاؤگے کیونکہ انہوں نے ھمیں اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار کردیا ھے، بیٹی ڈاکٹر کیا بنی ھے ان کے تو مزاج ھی نہیں ملتے۔

تیسرا منظر نامہ، اس کی یہ جرآت کہ ھمارے سیاسی مخالف کو اپنی شادی میں بلائے، اسے اس حرکت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، فوری طور پر اس کے گھر کی طرف جانے والے راستے پر ٹریکٹر سے ہل چلا دو تاکہ اسے احساس ھو کہ انہوں نے کسے للکارا ھے۔

انصاف امن و استحکام کی روح ھوتا ھے، یہ قدرت کی طرف سے بنی نوع انسان کیلئے عظیم تحفہ ھے۔ یہ بائنڈنگ فورس ھے جو افراد کو اجتماعی پیراڈائم میں جینے کا یقین دیتی ھے۔ اللہ پاک نے انسان کو آفاقی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار حضرت انبیاء کرام علیہ السلام مبعوث فرمائے۔ ھمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی زندگی ھمارے لئے مشعلِ راہ ھے۔ اسلام نے معاشرتی زندگی کو مثالی بنانے کیلئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا درس دیا ھے۔ امر باالمعروف و نہی عن المنکر متوازن زندگی کی روح ھیں۔ انہی آفاقی اصولوں کا کمال تھا کہ مدینہ منورہ کی فلاحی ریاست میں زکواتہ لینے والا کوئی نہ ملتا تھا۔

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ انسان کو رشتوں کی ایسی کہکشاں سے متعارف کرواتا ھے جس میں پرو کر انسان عظمت کی شاھراہ کا مسافر بن جاتا ھے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج کا انسان خلا کو مسخر کرنے کے باوجود ذھنی صحت کے لحاظ سے قدیم انسان سے پسماندہ ھے۔ اس کی بنیادی وجہ آفاقی اصولوں کی خلاف ورزی ھے۔ یورپ کا معاشرہ ٹیکنالوجی میں ترقی کے باوجود خاندانی نظام کے خوبصورت نیوکلیس کی پسماندگی کی وجہ سے اپنے خنجر سے خودکشی کرچکا ھے۔ آفاقی اصولوں کی بنیادوں کے بغیر ٹیکنالوجی معاشروں کو ہیروشیما اور ناگاساکی کا ڈیزاسٹر دیتی ھے۔ رشتے قوموں کا حقیقی دفاع ھوتے ھیں۔ جہاں رشتے بےحیائی اور خودغرض کے کینسر کا شکار ھوجائیں وھاں قوموں کو اپنے دفاع کیلئے نظریاتی سپاھی نہیں ملتے۔

ھمارا معاشرہ بدقسمتی سے مغرب کی مادہ پرستی کی تقلید کرکے رشتوں کی پسماندگی کا شکار ھورھا ھے۔ ھم اسلامی روایات کی دوری کی وجہ سے ایک دوسرے سے حسد، منافقت اور گرا کر آگے بڑھنے کے کینسر کے ذریعے سرد جنگ Proxy war لڑ رھے ھیں۔ معاشرتی بحران کا یہ عالم ھے کہ ھم اپنی انا کا قد اونچا رکھنے کیلئے خاندانی لڑائیاں لڑ رھے ھیں، شادی اور غمی میں خاندان کے خاندان شرکت کرنے سے انکار کررھے ھیں۔ قبائل کے قبائل ایک دوسرے کے خلاف Ego انا کی جنگ میں قبرستان بن چکے ھیں، انسانی ٹیلنٹ اور پوٹینشل irrelevant use ھوکر اپنی وقعت کھو رھا ھے۔ جب ظلم کے ساتھ کھڑے ھونے کا رواج عروج پکڑتا ھے تو قومیں ہجوم بن کر بےسمت ماری جاتی ھیں۔ میں نے مقامی پنچایت کو محض چائے بوتل کے لالچ میں ظالم کے ساتھ کھڑا ھوتے دیکھا ھے۔ انصاف کرنا صرف جج کا ھی مینڈیٹ نہیں ھوتا۔ انفرادی سطح پر ھم سب جج بن سگتے ھیں۔ جن معاشروں میں افراد حق کا علم بلند کرکے منفی عناصر کو Shut up call دے دیتے ھیں وھاں امن کے پھول کھلتے ھیں اور زمانہ انھیں اپنا لیڈر بنا لیتا ھے۔ ایک دوسرے خلاف صف آرا ہجوم پر ھمیشہ ان سے بڑے ظالم اور بےاصول راج کرتے ھیں۔ قرآن پاک کا حکم واضع ھے:جیسی قوم ھوتی ھے ویسے ھی حکمران ھوتے ھیں ۔

حکمران بدلنے ھیں تو سب سے پہلے خود کو آفاقی اصولوں کی روشنی میں باکردار فرد بناؤ۔ بقول شاعر مشرق

افراد کے ھاتھوں میں ھے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ھے ملت کے مقدر کا ستارہ

Check Also

Kahani Aik Deaf Larki Ki

By Khateeb Ahmad