Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Bukhari
  4. Namaloom Lifafa

Namaloom Lifafa

نامعلوم لفافہ

ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں وفاقی وزیر جہازرانی علی زیدی کی گفتگو زبان زد عام ہے۔ وفاقی وزیر فرماتے ہیں کہ کوئی صاحب موٹر سائیکل پر آئے اور گھر کے چوکیدار کو لفافہ دے کر چلے گئے۔ وفاقی وزیر نے لفافہ کھولا تو اس میں ملک کے مقتدر اداروں کے افسران کے دستخطوں کے ساتھ چند مبینہ ملزمان کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹس تھیں جن کا تذکرہ وزیر موصوف نے پارلیمنٹ اور ذرائع ابلاغ میں بھرپور انداز سے کیا جس کابظاہر نشانہ پیپلز پارٹی کی قیادت ہے۔ سیاست پاکستان کی ہو اور حریف پیپلز پارٹی کے ہوں تو ممکن نہیں کہ منہ توڑ جواب نہ آئے۔ سندھ کے وزرا اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے حصہ بقدر جثہ کے مطابق وفاقی وزیر کے الزامات کے جواب میں قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی بھرپور کوشش کی لیکن حصہ بقدر عہدہ کے مطابق وزیر اعلی سندھ کا جواب اس تحریر کا محرک بنا۔

وزرات عظمی پر نگاہیں ٹکائے سندھ کے نسبتا نوجوان اور متحرک وزیر اعلی فرماتے ہیں کہ وفاقی وزیر کو کوئی بھی گیٹ پر چیزیں دے جاتا ہے وہ پارلیمنٹ کے فلور پر لے آتے ہیں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئیے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے آئندہ وزیر اعظم کے لئے تیار کئے جانے والے سندھ کے وزیر اعلی نے سادہ لفظوں میں قوم کو یہ پیغام دیا کہ آپ کے گھر کوئی نامعلوم شخص لفافہ لائے تو اسے وصول کرنے سے انکار کردیں اور اگر آپ کا چوکیدار یا محافظ وصول کر ہی لے تو اسے کھولنے کی سیاسی غلطی کبھی نہ کریں۔ وزیر اعلی سندھ اور وفاقی وزیر کی لفظی گولہ باری میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرحوم رکن قومی اسمبلی میاں اعجاز شفیع بہت یاد آئے جو ایسا ہی ایک لفافہ کھول لینے کی وجہ سے قبل از وقت اس دنیا سے کوچ کرنے کی بجائے زندگی کے دو قیمتی سال مزید اس دنیا میں گذار گئے۔ وزیر اعلی سندھ مشرف کے دور حکومت میں سید مراد علی شاہ رکن صوبائی سندھ اسمبلی تھے انہیں شائد ہی یاد کہ 2002 جب ان کی قیادت درون خانہ این آر او پر کام رہی تھی مسلم لیگ(ن) کی تمام قیادت تاریخ کے بدترین جبر کا سامنا کر رہی تھی۔

سندھ سے مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں اعجاز شفیع واحد رہنما تھے جو میاں نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئے جس کی پاداش میں ان کے خلاف مسلم لیگ(ن) کے اندر سے ہی مخالفین کا گروپ کھڑا کیا گیا، جنہیں اس وقت کے ڈائرکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل عبد القادر بلوچ کے حکم پر اس وقت گرفتار کیا گیا جب ایک حساس ادارے کے مقامی سربراہ نے انہیں اپنے دفتر میں چائے پر بلا رکھا تھا۔ انہیں حراست میں رکھا گیا ضروری ادویات کے بغیر مہینوں سرکاری ریسٹ ہاوسز کا مہمان بنایا گیا۔ ان کے گھر پر فائرنگ کروائی گئی ان کے اہل خانہ کا نامعلوم نمبروں والی معلوم گاڑیوں سے پیچھا کروایا گیا لیکن جب مشرف حکومت اس کے اتحادیوں اور حواریوں کے تمام حربے ناکام ہوگئے تو ایک شام ایک نا معلوم شخص غروب آفتاب کے بعد ایک موٹر سائیکل پر ان کی رہائش گاہ پر آیا اور ان کے گارڈ کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھما کر یہ جا وہ جا۔

اعجاز شفیع مرحوم جب گھر پہنچے تو محافظ نے ایک لفافہ انہیں تھما دیا کہ کوئی نامعلوم شخص نام بتائے بغیر آپ کے نام یہ لفافہ دے گیا ہے۔ اگرچہ اعجاز شفیع ان دنوں میں سیدی مراد علی شاہ کے سینئر سیاسی بزرگوں خورشید علی شاہ، بیرسٹر اعتزاز احسن، سید نوید قمر، نثار کھوڑو کے بہت قریب تھے لیکن اس وقت پیپلز پارٹی کے سیاسی نصاب میں نا معلوم افراد کے مشکوک لفافوں کو کھولے بغیر پھینک دینے کا سبق کہیں درج نہیں تھا۔ اعجاز شفیع مرحوم نے پہلے تنہا اپنی خواب گواہ میں بیٹھ کر لفافہ کھولا چند لمحوں کے لئے خوف نے جھنجھوڑا لیکن فورا ہی اپنے اوسان کو مکمل قوت کے ساتھ مجتمع کیا اور اپنے قریبی ساتھی شیخ فیاض کو فون پر آگاہ کیا کہ بند لفافے میں کس کی جے آئی ٹی ہے اور کس کا پیغام ہے کہ گڈ لک اعجاز شفیع! اپنے قریبی ساتھیوں سے مشاورت کے بعد حسب عادت سرور پیلس العزیزیہ سعودی عرب میں اپنے قائد میاں محمد نواز شری کو نامعلوم افراد کے مشکوک خط کے مندرجات سے آگاہ کیا ان کی رہنمائی مانگی اور چند گھنٹوں بعد ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ تک یہ خبر پہنچ گئی کہ نامعلوم افراد کے لفافے میں اعجاز شفیع کو اپنے لئے کفن خریدنے کے لئے مبلغ سات ہزار روپے اور ڈیفنس قبرستان میں ان کے نام سے بک کی گئی قبر کی رسید تھی۔

جدہ سے بریگیڈئیر جاوید ملک، سیالکوٹ میں مشرف آمریت کے سامنے ڈٹ جانے والے خواجہ آصف فیصل آباد کے رہنما میاں عبد المنان، لاہور سے پرویز ملک سب نے قائد نواز شریف کی رائے کے مطابق معاملہ ملکی و غیر ملکی ذرائع کے ساتھ شیئر کرنے کی تائید کی اور اس طرح میاں اعجاز شفیع نے مشرف کے کاسہ لیسوں کی بدترین انتقامی کاروائیوں کے باوجود 2002 کے عام انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور اپنے قائد میاں محمد نوازشریف کی قومی اسمبلی کے چار حلقوں عزیز آباد، کیماڑی، بلدیہ ٹاؤن کراچی اور سانگھڑ سے نمائندگی کرتے ہوئے سندھ میں نہ صرف پاکستان مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کو نیا حوصلہ دیا بلکہ مشرف کے لالچ اور دباؤ کی وجہ سے سندھ میں نواز شریف کے ساتھ غداری کرنے والوں کو بھی منہ توڑ جواب دیا۔

اے کاش اس وقت سیدی مراد علی شاہ سندھ کے وزیر اعلی ہوتے اور موجودہ وزرا کی فوج ظفر موج اعجاز شفیع کو مشورہ دینے والی ہوتی تو میاں اعجاز شفیع نہ 2002 کے عام انتخابات میں حصہ لے پاتے نہ ہی 2004 کے ضمنی انتخابات میں سندھ میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کو سیاسی مخالفین کے لئے بڑا چیلنج ثابت کرسکتے۔ محترم وزیر اعلی!نامعلوم افراد کا بند لفافہ بقول آپ کے نا کھولا جاتا تو میاں اعجاز شفیع دسمبر 2004 کی بجائے 2002 ہی میں سیاسی مخالفین کے انتقام کا نشانہ بن چکے ہوتے اس لئے لفافے کھولنے بہت ضروری ہوتے ہیں محترم وزیر اعلی صاحب! کبھی کبھی لفافے نہ کھلیں تو موت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar