Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Afifa Shahwar
  4. Sab Se Kharab Cheez

Sab Se Kharab Cheez

سب سے خراب چیز

ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ ملک میں سب سے خراب چیز کل صبح مجھے لا دو۔ وزیر اپنے گھر آیا تو سوچ سوچ کر کافی پریشان ہوگیا کہ معلوم نہیں، سب سے خراب چیز کون سی ہے؟ بادشاہ تو کل مجھے مار ڈالیں گے۔ وزیر اسی غم میں شہر سے بھاگ نکلا اور ایک ویرانے میں پہنچ گیا۔ اس نے بکریوں کا ریوڑ دیکھا۔ گڈریا اس کے ساتھ ہے اور کوئی نہیں۔

وزیر نے دیکھا کہ ساری بکریوں کے گلے میں سونے کی گھنٹیاں پڑی ہوئی ہیں۔ وزیر نے گڈریے سے پوچھا کہ تمھاری بکریوں کے گلے میں کیا پڑا ہوا ہے؟ گزریے نے جواب دیا کہ بکریوں کے گلے میں پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ وزیر نے پوچھا۔ یہ پتھر کہاں سے ملے گا۔ مجھے وہ جگہ بتاؤ۔

گڈریے نے کہا کہ رات کو میرے ساتھ چلو جب صبح ہوگی تو میں وہ پہاڑ تمھیں بتاؤں گا۔ وزیر گڈریے کے ساتھ ہو لیا۔ رات ہوگئی۔ گڈریے کے گھر میں ٹھہرا۔ گڈریا اپنی بکریوں کے پاس ہی سو گیا۔ آدھی رات کو جب وزیر کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ گڈریا بیٹھا کچھ پڑھ رہا ہے۔ وزیر اٹھ کر گڈریے کے پاس آگیا۔ اس نے دیکھا کہ گڈریے کے سامنے ایک بکری سو رہی ہے اور گڈریا کہہ رہا ہے۔ سبحان الله۔۔

گڈریا وظیفہ پڑھتا رہا اور رات ختم ہوگئی۔

صبح ناشتہ کرنے کے بعد وزیر نے کہا: اب وہ پہاڑ مجھے دکھاؤ۔ مجھے ضروری جانا ہے۔ گڈریے نے کہا: آج میں اس طرف نہیں جا سکتا، آج تم یہیں بیٹھے رہو۔

وزیر نے گڈریے سے کہا: اچھا تو تم مجھے بکریوں کے گلے سے کچھ اتار کر دے دو اور بعد میں دوسرے پتھر لا کر ان کے گلے میں ڈال دو۔

گڈریے نے کہا۔ میں اپنی بکریوں کا دودھ جس برتن میں کتے کو پلاتا ہوں۔ تم بھی دودھ اس برتن میں پیو جس طرح کتا پیتا ہے۔ پھر میں بکریوں کے گلے سے پتھر اتار کر تمھیں دے دوں گا۔ گڈریے نے کتے والے گندے برتن میں دودھ لیا، پھر اس نے وزیر سے پوچھا: تم ہو کون؟ وزیر نے بادشاہ کا نام لے کر ساری بات بتائی کہ بادشاہ نے مجھے حکم دیا کہ سب سے خراب چیز میرے پاس لاؤ۔ اب مجھے پتا نہیں کہ سب سے خراب چیز کون سی ہوتی ہے؟ میں نے سوچا سونا لے کر بادشاہ کے پاس جاؤں گا تو وہ خوش ہو جائے گا۔

گڈریے نے کہا کہ سونا تو میں تمھیں بہت دکھاؤں گا لیکن اس طرح تمھیں سونے کا پہاڑ دکھائی نہیں دے گا۔ تم کتے کی طرح کھاؤ پیو، پھر تمھاری آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جائے گا اور تم دیکھو گے کہ یہ پہاڑ سب سونے کے ہیں۔ وزیر کتے کی طرح دودھ پینے کے لیے تیار ہوگیا۔ وہ اپنے گھٹنے تہہ کرکے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا تو گڈریے نے اسے دھکا دیا کہ ہٹ جاؤ، ابھی تک تمھیں پتا نہیں چلا کہ سب سے خراب چیز کون سی ہے؟"لالچ"۔ لالچ سب سے خراب چیز ہے۔ سب کو خوار کر دیتی ہے۔ تم نے لالچ میں آکر اپنا حال دیکھا؟

مندرجہ بالا واقعہ بلوچ لوک کہانی ہے جس کا اردو ترجمہ بشیر احمد بلوچ صاحب نے کیا ہے۔ یہ کہانی ہمارے گیارہویں کی اردو نصاب کا حصہ بھی ہے اور ہمارے عمومی رویے کی عکاس بھی جو کہ ہمارے ہاں کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

لالچ یا حرص (انگریزی: Greed) حد سے زیادہ یا ناقابل تشفی اندرونی جذبہ ہے کہ کسی طرح سے مادی وسائل کو حاصل کیا جا سکے۔ یہ غذا، مال و دولت، سماجی اوقات یا اقتدار سے متعلق ہو سکتا ہے۔

اگر لالچ کا جذبہ کسی انسان میں بڑھ جاتا ہے تو وہ انسان طرح طرح کی بداخلاقیوں اور بے مروتی کے کاموں میں پڑ جاتا ہے اور بڑے سے بڑے غلط کام سے بھی نہیں چوکتا اور اس کے انجام میں اپنے لئے منتظر رسوائی اور ذلت سے بےخبر رہتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ملک کرپشن میں کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے۔ بےپناہ وسائل کے باوجود عوام بد سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور مستقبل قریب تک ترقی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔

ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہمسایہ ملک اور ہم سے کٹ کر اپنا نیا سفر شروع کر لینے والا ملک ہم سے آگے نکلنے لگے ہیں مگر ہم میں سے کوئی بھی اپنی اصلاح کرنے کو تیار نہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور کا حرف آغاز و اختتام ہے اور عوام بھی بےشعوری و جہالت کی اسی غلام گردش میں مدہوش پڑے ہیں۔

دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور پاور گیم کے اہم کھلاڑی ممالک ترقی پزیر اور تیسری دنیا کے ممالک پر اپنا قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور تشویش کی بات تو یہ ہے کہ اب انہیں فزیکلی ان ممالک میں موجود رہنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ٹیکنالوجی کے ذریعے ان ممالک کو اپنی کالونیاں بنا کر اپنا تسلط قائم کئے ہوئے ہیں اور نام نہاد قرضے کتے کا وہ پیالہ ہیں جن میں یہ محکوم قومیں کھانے پینے پر مجبور ہیں۔

اسرائیل جیسی قوم جو کہ تعداد میں چند کروڑ ہے، اپنے عمل اور محنت سے پوری دنیا میں اپنا اثرورسوخ قائم کر چکی ہے جبکہ مسلمان جو کہ دنیا میں اربوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود اپنی اخلاقی پستیوں کی وجہ سے دنیا میں اپنا وہ مقام حاصل نہیں کر پا رہے جو کہ ہونا چاہیئے۔ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا اور دنیا کی سب سے بری چیز سے ہم چھٹکارہ نہ پا سکے تو دنیا میں اچھی قوم کا درجہ نہیں پا سکیں گے۔

Check Also

Ye Roshni Fareb Hai

By Farhat Abbas Shah