Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mehmood Azaam
  4. Zarb e Momin Aur Roznama Islam, Ilzamat Aur Haqaiq

Zarb e Momin Aur Roznama Islam, Ilzamat Aur Haqaiq

ضربِ مومن اور روزنامہ اسلام، الزامات اور حقائق

پاکستان کی مذہبی صحافتی تاریخ میں ہفت روزہ ضربِ مومن اور روزنامہ اسلام دو ایسے نام ہیں جو محض اخبارات نہیں، بلکہ تحریکوں کا استعارہ ہیں۔ یہ وہ چراغ ہیں جنہوں نے صحافت کے تاریک گوشوں میں روشنی بھری، جب الفاظ فروخت ہو رہے تھے اور ضمیروں پر نرخ لگ چکے تھے۔ اُس دور میں مذہبی طبقے، دینی مدارس، مذہبی جماعتوں اور شخصیات کو نظر انداز کیا جا رہا تھا، اسلام کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر تھا اور دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑا جا رہا تھا۔ ایسے میں ان اخبارات نے خبر کو کاروبار نہیں بلکہ امانت سمجھا۔ صفحات کو منافع کے لیے نہیں، بلکہ امت کی بیداری کے لیے استعمال کیا۔ نہ صرف سچ عوام تک پہنچایا، بلکہ گھروں تک فکری تربیت پہنچائی۔ دونوں اخباروں نے ہمیشہ مذہبی جماعتوں، شخصیات اور دینی مدارس کو جگہ دی، ان کی آواز کو نمایاں کیا اور ہر موقع پر دینی حلقوں کا ساتھ دیا۔

دینی صحافت نے اندھی تقلید نہیں کی، بلکہ حالات کے آئینے میں حق کا رخ دیکھا، دلیل سے بات کی اور ایمان سے لکھی۔ یہ اخبارات نظریے اور ضمیر کے تابع تھے اور ضمیر ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ ضربِ مومن اُس وقت منظرِ عام پر آیا جب امتِ مسلمہ روسی درندگی کے سامنے تنہا کھڑی تھی۔ دنیا خاموش تھی، اقوامِ متحدہ اندھی تھی اور عالمی میڈیا مغرب کا ترجمان بن چکا تھا۔ ایسے میں ضربِ مومن نے قلم کو تلوار بنایا۔ امت کے درد کو محسوس کیا اور صحافت کو نیا مفہوم دیا کہ قلم وہی معتبر ہے جو دین کی خدمت میں چلے۔ یہی اخلاص تھا جس نے اسے نظریاتی دباؤ، حکومتی پابندیوں اور عالمی مزاحمت کے باوجود زندہ رکھا۔ ضربِ مومن بند تو ہوا، مگر اس نے جو فکری روشنی پیدا کی، وہ بعد کے ہر دینی اخبار کی بنیاد بن گئی۔

میں نے خود بچپن سے ضربِ مومن پڑھا، پھر جامعۃ الرشید میں اس کے مواد کا باریک مشاہدہ کیا اور بعد ازاں اس میں لکھنے کا موقع بھی ملا۔ اسی تسلسل میں جب دینی صحافت کو نئے دور میں ایک پُرخلوص، باوقار اور متوازن نمائندے کی ضرورت تھی تو روزنامہ اسلام نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ روزنامہ اسلام کے مختلف شعبوں میں بھی کئی سال ذمہ داریاں سنبھالے رکھیں۔ روزنامہ اسلام جذبے سے دانش تک کے سفر کی علامت ہے۔ اس نے امت کے مسائل کو جذبات کے نہیں، عقل و استدلال کے ساتھ بیان کیا۔ جب عالمی طاقتوں نے اسلام کو دہشت گردی کے مترادف قرار دیا اور مذہبی آوازوں پر میڈیا کے دروازے بند کیے جا رہے تھے، تب روزنامہ اسلام نے اعتدال کی راہ اپنائی۔

نہ خوف سے پیچھے ہٹا، نہ اشتعال سے آگے بڑھا۔ اس اخبار نے لبرل ازم، سیکولر ازم اور الحاد کے فکری حملوں کا علمی اور مدلل جواب دیا۔ یہ ریاست مخالف نہیں تھا، مگر اندھی ریاست پرستی کا بھی قائل نہیں۔ یہ دین کا وکیل تھا۔ اس نے بتایا کہ ریاست سے وفاداری ہوسکتی ہے، مگر وابستگی صرف اسلام سے ہونی چاہیے۔ روزنامہ اسلام کے خصوصی صفحات، خصوصاً "خواتین کا اسلام" اور "بچوں کا اسلام" نے گھروں کو فکری تربیت گاہوں میں بدل دیا۔ یہ وہ صحافت تھی جو اصلاح کو خبر کے قالب میں ڈھالتی تھی۔

حالیہ دنوں میں جب مفتی عبدالرحیم کی جانب سے سانحہ لال مسجد میں طالبات کی شہادت کی نفی اور افغان طالبان کی موجودہ پالیسیوں پر تنقید سامنے آئی تو کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ماضی میں انہی اخبارات نے ان واقعات کو مختلف انداز میں کیوں پیش کیا۔ سوال اٹھایا گیا کہ اُس وقت جھوٹ بولا گیا تھا یا آج جھوٹ بولا جا رہا ہے؟ درحقیقت نہ ماضی جھوٹ تھا، نہ آج جھوٹ ہے۔ یہ اعتراض فہمِ زمانہ کی کمی کا نتیجہ ہے۔ یہ کہنا کہ ضربِ مومن اور روزنامہ اسلام نے ماضی میں طالبان کو "مجاہد" کہا اور آج "دہشت گرد" کہہ دیا، دراصل فہم کا مغالطہ ہے۔ جب طالبان اسلام کے لیے قربانیاں دے رہے تھے، وہ مجاہد تھے۔ جب وہ غیر ملکی افواج سے برسرپیکار تھے، وہ ہیرو تھے، جب اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا تھے تو عظیم لوگ تھے۔

لیکن جب وہ نسلی و لسانی تعصبات کا شکار ہو کر پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کار بن گئے، جب انہوں نے ٹی ٹی پی کے ذریعے معصوم پاکستانیوں کو نشانہ بنایا، تب ان پر تنقید بھی حق ہے اور اب وہ ظالم ہیں۔ جہاں تک لال مسجد کے سانحے کا تعلق ہے، اُس وقت اطلاعات متضاد تھیں، ریاست حملہ آور تھی، میڈیا منقسم تھا اور مذہبی طبقہ مشتعل۔ حقائق کسی کو معلوم نہیں تھے اور درست اعداد و شمار دستیاب نہ تھے۔ دینی اخبارات نے اُس وقت انسانی المیے پر آواز اٹھائی، جو ان کا دینی و اخلاقی فریضہ تھا۔ اگرچہ ریاستی دباؤ بہت زیادہ تھا، مگر انہوں نے ظلم کے خلاف لکھنے سے گریز نہیں کیا۔ بعد میں جب شواہد سامنے آئے تو معتبر علماء اور اہلِ علم کے مؤقف میں وضاحت پیدا ہوئی۔ بہت سے علماء نے اپنے موقف سے رجوع کیا۔ یہ تبدیلی نہیں، بلکہ سچائی کی تصحیح تھی۔ سچائی پر لوٹ آنا ہی دراصل صحافتِ ایمان کی علامت ہے۔

یہ اخبارات نہ ریاست دشمن تھے نہ ریاست پرست۔ انہوں نے ہمیشہ "اصلاحِ ریاست" کے اصول پر بات کی۔ اگر ریاست اسلامی نظریات کے ساتھ کھڑی ہوئی تو انہوں نے اس کی تائید کی اور اگر وہ انحراف کی راہ پر چلی تو حق گوئی سے گریز نہیں کیا۔ یہی توازن ان کا امتیاز ہے۔ ضربِ مومن نے امت میں حرارتِ ایمان پیدا کی، جبکہ روزنامہ اسلام نے حکمت و توازن کی فضا قائم کی۔ ان دونوں کا صحافتی معیار اتنا بلند تھا کہ مخالف نظریاتی حلقے بھی اس کے معترف تھے۔ یہ دونوں اخبار پاکستانی صحافت کو ایمان اور علم کے دو ستون عطا کر گئے۔ ضربِ مومن اور روزنامہ اسلام اسی ضمیر کی وہ آواز ہیں جنہوں نے امت کو بتایا کہ خبر کا مقصد اطلاع نہیں، اصلاح ہے۔

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اخبارات ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہیں، مگر یہ محض الزام ہے۔ دونوں اخبارات کی پالیسی ہمیشہ سچی، معیاری، تعمیری اور معتدل رہی۔ انہوں نے جو بات درست سمجھی، اسے بے خوف ہو کر لکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر پابندیاں لگیں، دفاتر بند کیے گئے، مگر انہوں نے حق کہنا نہیں چھوڑا۔ اگر یہ ریاست کے نمائندے ہوتے تو پابندیاں نہ لگتیں، ضربِ مومن بند نہ ہوتا۔ لال مسجد کے واقعے کے وقت آمر پرویز مشرف کے خلاف انہوں نے کڑا اور سخت موقف اپنایا، چاہے اسٹیبلشمنٹ اس پر ناراض ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد بار سچ مگر سخت موقف اپنایا۔ یہی جرأتِ ایمانی ان کی پہچان ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari