Ye Safar Raigan Nahi Gaya
یہ سفر رائیگاں نہیں گیا

پہلے ہی یقین تھا کہ ایسا ہی ہوگا اور ہوا بھی وہی۔ آخر ایک ایسی ناجائز ریاست، جس کی پشت پر دنیا کی تقریباً تمام طاقتور قوتیں موجود ہوں، یہ کیسے برداشت کرسکتی تھی کہ انسانیت کے چند سو نہتے غمخوار اس کی بدمعاشی کے حصار کو توڑ کر مظلومینِ غزہ کی مدد کو پہنچ سکیں؟ جارحیت کی عادی ریاست نے ایک بار پھر اپنی درندگی اور قزاقی کی روایت دہرا دی۔ محصورینِ غزہ کے لیے نکلنے والا قافلۂ انسانیت، گلوبل صمود فلوٹیلا، بالآخر بین الاقوامی پانیوں میں روک لیا گیا۔ کشتیوں کو گھیر کر خارشی کیمیکل برسائے گئے، اسٹن گرینیڈ داغے گئے اور پھر کمانڈوز نے دھاوا بول کر نہتے امدادی کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، مگر اس بار دنیا نے اسے زیادہ توجہ کے ساتھ دیکھا۔
اس فلوٹیلا میں دنیا کے 44 ممالک کے پانچ سو سے زائد رضاکار شامل تھے، جن میں انسانی حقوق کے نمائندے، سماجی کارکن، صحافی اور رہنما شریک تھے۔ انہی میں پاکستان کے جری اور بے باک رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان بھی شامل تھے۔ وہی سینیٹر مشتاق جنہیں ایک اہلکار نے طنزیہ کہا تھا: "غزہ کیوں نہیں چلے جاتے؟" شاید وہ لمحہ قبولیت کا لمحہ تھا۔ ڈھلتی عمر کا یہ جانباز اپنے یقین کو کاندھے پر اٹھائے مقتل کی سمت چل پڑا۔ آج انہوں نے دنیا کو دکھا دیا کہ ایسے بھی سیاست دان ہوتے ہیں جو محض تقریروں تک محدود نہیں رہتے، بلکہ عمل کے سمندر میں اتر جاتے ہیں۔ وہ اگرچہ غزہ کے لاچار انسانوں تک نہ پہنچ سکے، لیکن پوری دنیا تک یہ پیغام ضرور پہنچا گئے کہ اس امت میں اب بھی ایسے دلیر موجود ہیں جو ظلم کے سامنے ڈٹنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ گفتار کے نہیں، بلکہ کردار کے غازی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ افسوس کہ آج امت وہ زبان بھلا بیٹھی ہے، اسی لیے دنیا اس کی بات سنتی تو ہے مگر سمجھتی نہیں۔ ورنہ بھیک میں ملی زمین پر پلنے والی اور بعد میں جبر سے قابض بننے والی یہ ریاست مسلمانوں کے ایمان کا مقابلہ کرنے کی ہمت ہی نہ رکھتی۔ یہی در۔ ندگی ہے جس کے تحت اسرائیلی افواج نے کشتیوں پر اسٹن گرینیڈ برسائے، خارشی پاؤڈر پھینکا اور انسانی ضمیر کو ہتھکڑیاں پہنا دیں۔
جیسے ہی صمود فلوٹیلا پر حملے کی خبر دنیا بھر میں پہنچی، یورپ اور عرب دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اٹلی، بیلجیم، یونان، جرمنی اور فرانس کے دارالحکومتوں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ برلن میں درجنوں مظاہرین گرفتار ہوئے، بارسلونا میں اسرائیلی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیا گیا، تیونس اور موریتانیا میں امریکا اور ازرا۔ ئیل کے خلاف نعرے بلند ہوئے۔ یہ احتجاج اس بات کی علامت ہیں کہ دنیا بھر میں ضمیر اب بھی جاگ سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی ان مظاہروں کو زیادہ شدت اور تسلسل کے ساتھ ہونا چاہیے، کیونکہ پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان اور دیگر کئی اہلِ دل گرفتار ہوئے ہیں۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ مظلوموں کا سہارا بننے نکلے تھے اور یہی بات قابض قوتوں کو برداشت نہ ہوئی۔
کچھ ناقدین کہیں گے کہ یہ سفر رائیگاں گیا، کشتیوں کو منزل تک پہنچنے نہ دیا گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ناکامی نہیں، بلکہ ایک عظیم کامیابی ہے۔ جب دنیا خاموش تھی، ان چند دیوانوں نے اعلان کر دیا کہ اہلِ غزہ تنہا نہیں۔ جب حکمران اقتدار اور جماعتی مصلحتوں میں قید تھے، یہ قافلہ آزادی کی علامت بن گیا۔ جب دنیا کی آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی تھی، یہ کارواں ابابیلوں کی طرح اپنی چونچ میں پانی کے قطرے لے کر جلتے الاؤ پر ڈالتا رہا۔ آنے والی نسلیں پڑھیں گی کہ جب لاکھوں انسانوں کو ایک کھلے پنجرے میں قید کیا گیا تھا، تب بھی کچھ لوگ سمندروں کو چیرتے ہوئے ان کے لیے نوالے اور دعائیں لے کر نکلے تھے۔
یہ گرفتاریاں ان کے ارادوں کو زنجیر میں جکڑ سکتی ہیں، لیکن ان کے حوصلوں کو قید نہیں کر سکتیں۔ یہی کردار تاریخ میں زندہ رہتے ہیں، یہی لوگ وفا کی علامت اور جبر کے خلاف بغاوت کی صدا ہیں۔ صمود فلوٹیلا نے دنیا کو یاد دہانی کرائی کہ انسانیت ابھی زندہ ہے، پسلیوں کے پیچھے آج بھی دھڑکتے ہوئے دل موجود ہیں۔
اگرچہ حکمران اپنی مجبوریاں اور مصلحتیں بیان کرتے رہیں گے، لیکن اس امت میں اب بھی ایسے دیوانے موجود ہیں جو طارق بن زیاد کی طرح سمندروں کو چیر کر نکلتے ہیں۔ یہ قافلہ منزل تک نہ بھی پہنچا، لیکن اس کا پیغام اپنی منزل تک ضرور پہنچ گیا۔ یہ قافلہ دراصل ایک صدا ہے، ایک اعلان کہ مظلوم کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہ وعدہ ہے کہ دنیا کے اندھیروں میں اب بھی روشنی کے چراغ جل سکتے ہیں۔

