Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mehmood Azaam
  4. Well Done, Wazir e Taleem

Well Done, Wazir e Taleem

ویل ڈن، وزیر تعلیم پنجاب

وزیر تعلیم پنجاب نے اگرچہ گزشتہ عرصے میں شعبۂ تعلیم اور اساتذہ کے عزت و وقار کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے، جس کے باعث پنجاب بھر کے اساتذہ ان سے نالاں اور خوف زدہ ہیں، مگر اب کی بار انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ شیخوپورہ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے پر وزیر تعلیم پنجاب کا سی ای او ایجوکیشن آفیسر شیخوپورہ کے ساتھ کھڑا ہونا ان کی ذمہ داری تھی، انہوں نے اس فرض کو نہایت احسن انداز میں ادا کیا۔ اسی وجہ سے اساتذہ برادری کی جانب سے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ سی ای او ایجوکیشن ایک انتظامی عہدہ ہے، مگر چونکہ وہ شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہیں، اس لیے یہ واقعہ پورے صوبے کے اساتذہ کے وقار کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔

شیخوپورہ کے محکمۂ تعلیم میں پیش آنے والا واقعہ کسی ایک افسر کا معاملہ نہیں، بلکہ پورے نظامِ حکمرانی، قانون کی عمل داری اور انتظامی انصاف پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ جب طاقت، دباؤ اور تعلقات قانون پر غالب آ جائیں تو انصاف کے ستون لرزنے لگتے ہیں اور اداروں کی ساکھ خاک میں مل جاتی ہے۔ رِیشنلائزیشن کے دوران ایک وکیل صاحب کی اہلیہ کا تبادلہ قواعد کے مطابق کسی دوسرے اسکول میں ہوا، یہ محض ایک معمولی اور انتظامی نوعیت کا معاملہ تھا جو ضابطے کے مطابق بخوبی حل ہو سکتا تھا۔ مگر جب بات "اثر و رسوخ" کے دائرے میں داخل ہوئی تو معاملہ اصول سے نکل کر تشدد اور دباؤ کی شکل اختیار کر گیا۔ درجنوں وکلاء نے دفتر میں گھس کر چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ایجوکیشن شیخوپورہ پر تشدد کیا، دفتر کی حرمت پامال کی اور ریاستی وقار کو پاؤں تلے روند ڈالا۔ وکلاء کی یہ بدمعاشی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور پورا ملک اس شرمناک منظر کا گواہ بنا۔ مقدمہ درج ہوا، چند دن شور برپا رہا، لیکن ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ نے چند ملاقاتوں اور مصافحوں کے بعد کہانی "صلح" کے نام پر لپیٹ دی۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن وکلاء نے ضلع کے سب سے بڑے تعلیمی افسر پر تشدد کیا، انہی کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے۔ وکیل صاحب کی اہلیہ کے مطلوبہ اسکول میں تبادلے کے آرڈرز جاری ہوئے اور وہی افسر، جس پر تشدد کیا گیا تھا، خود وکلاء کے دفتر جا کر آرڈرز حوالے کرنے پر مجبور ہوا۔ وکلاء نے تصویریں بنوائیں، جشن منایا اور انصاف ایک بار پھر کمزور پڑ گیا۔ مگر اس بار وزیرِ تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات نے جرات مندانہ موقف اختیار کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ محکمہ تعلیم کے آفیسر کے ساتھ کھڑے ہیں اور زبردستی کروائے گئے تبادلے کے آرڈرز منسوخ کر دیے۔

وزیرِ تعلیم کا یہ دوٹوک مؤقف یقیناً قابلِ تعریف ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا: "شیخوپورہ کی پنچایتیں کرنا ڈپٹی کمشنر کا کام نہیں۔ بطور چیئرمین ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی میرٹ یقینی بنانا آپ کی ذمہ داری تھی۔ آپ کو اپنے وکیل بھائی کو سمجھانا چاہیے تھا کہ جہاں اساتذہ کی کمی ہے وہاں بھیجا جا رہا ہے اور جہاں سرپلس ہیں وہاں سے ریشنلائزیشن کی جا رہی ہے۔ پانچ اسکولوں کے آپشن خود انہوں نے منتخب کیے تھے، ہم نے انہی میں سے ایک میں تبادلہ کیا"۔ وزیرِ تعلیم نے یہ بھی کہا کہ ان کی ٹیمیں لاہور سے جا کر عدالت میں پیش ہوں گی، سیکیورٹی فراہم کی جائے گی اور اگر ضرورت پڑی تو وہ خود عدالت میں دلائل دینے جائیں گے۔

یہی وہ اعلان ہے جس نے صوبے کے ہزاروں اساتذہ کو اعتماد دیا ہے کہ وہ اکیلے نہیں، ان کے پیچھے وزیرِ تعلیم کھڑے ہیں۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیرِ تعلیم کے اس اعلان کو محض ایک وقتی ردِ عمل نہ سمجھا جائے بلکہ اسے اصلاحات کے آغاز کا نقطہ بنایا جائے۔ اس واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ایک غیر جانب دار، اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ آئندہ کوئی طاقتور طبقہ قانون کو یرغمال نہ بنا سکے۔ اگر ریاست اپنے افسران اور اساتذہ کے عزت و وقار کا تحفظ نہیں کر سکتی تو یہ تاثر مزید گہرا ہوگا کہ یہاں"طاقت ہی قانون" ہے اور جہاں طاقت قانون بن جائے وہاں انصاف ہمیشہ پٹ جاتا ہے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz