Tanqeed Na Karen, Daad Dein
تنقید نہ کریں، داد دیں
ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی ایک انسان ہیں، کوئی فرشتہ نہیں کہ ان سے غلطی نہیں ہوسکتی۔ اگرچہ وہ ایک بڑے مبلغ اور نامور داعی اسلام ہیں، برسوں سے اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں، لیکن اس کے باوجود ان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں، ان کی رائے اور طریقہ بھی غلط ہوسکتا ہے۔ ان کا انداز اور مزاج بھی غلط ہوسکتا ہے۔ ان سے اختلاف کریں، آپ کا حق ہے، لیکن بلاوجہ صرف تعصب اور بغض کی وجہ سے ان کی ذات و اخلاص اور ان کی خدمت و علمیت کو تنقید کا نشانہ بنانا پرلے درجے کی سطحیت ہے۔ ان کی تمام خدمات کو نظر انداز کرکے کسی ایک بات کو گرہ باندھ لینا بہت غلط سوچ ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک پر جس وجہ سے تنقید کی جارہی ہے، حقیقت میں اسی وجہ سے دینی حلقوں میں ڈاکٹر صاحب کے احترام میں اضافہ ہونا چاہیے۔ یتیم لڑکیوں کو شیلڈ دینے سے انکار کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر صاحب کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ لبرلز کا تو اس معاملے میں باولا ہونا بنتا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک تو شرعی پردے کا تصور ہی نہیں، یہ لوگ تو شرعی احکام تک کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن شرعی احکام سے محبت رکھنے والے افراد اور دینی و مذہبی خیالات کے حامل حلقوں کا اس معاملے میں تنقید کرنا سمجھ سے باہر ہے۔
یہ لوگ کسی بھی عالم دین اور کسی بھی دارالافتاء سے پوچھ کر بتائیں کہ کسی کے صرف یتیم ہونے سے شرعی پردے کا حکم بدل جائے گا؟ ہرگز نہیں۔ ہم لوگ شرعی احکام پر عمل کرتے ہوئے سستی سے کام لیتے ہیں۔ کچھ احکام کو نظر انداز کردیتے ہیں، یہ ہماری نااہلی ہے، لیکن اگر ایک داعی اس معاملے میں تقویٰ اختیار کرتا ہے، ممکن ہے آپ کے نزدیک شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہ بھی ہو، لیکن اگر کوئی غلط سمجھتے ہوئے نہیں کرتا تو اس کی رائے کا احترام ہونا چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہر طرف بے پردگی عام ہونے کی وجہ سے شرعی پردے کا تصور اس معاشرے میں اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ جو شخص اس شرعی حکم پر عمل کرے، اس کو داد دینے کی بجائے اس پر تنقید کی جاتی ہے، یہ بہت خطرناک بات ہے۔
پلوشہ کے سوال کے معاملے میں کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا رویہ اچھا نہیں تھا۔ لڑکی کو بہتر انداز میں سمجھانا چاہیے تھا، لیکن شاید ڈاکٹر صاحب کی غیرت ایمانی کو گوارہ نہ ہوا کہ کوئی فرد بدفعلی کو اسلامی معاشرے اور اسلامی تعلیمات سے جوڑنے کی کوشش کرے۔ ڈاکٹر صاحب نے اشتہارات کی وجہ سے یوٹیوب کی کمائی کو بھی حرام قرار دیا ہے، اگر وہ چاہتے تو لاکھوں ڈالر کماسکتے ہیں، لیکن اپنی صلاحتیں صرف خدمت دین کے لیے وقف ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک سچے اور مخلص مبلغ اور داعی اسلام ہیں، جو شرعی احکام پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو شرعی احکام کے معاملے میں متزلزل اور متذبذب نہیں اور نہ ہی کسی کو متاثر کرنے کے لیے شرعی احکام کو ہیچ دکھانے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ ماضی اور مستقبل میں بہت سے دانشور لبرلز اور ملحدین سے مرعوب ہو کر شرعی احکام پر ہی تنقید کرنے لگتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک ان سے مختلف ہیں، جو خود پر تنقید تو برداشت کرتے ہیں، لیکن شرعی احکام کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔