Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mehmood Azaam
  4. Selab Ki Tabahi, Mansooba Bandi Kahan Hai?

Selab Ki Tabahi, Mansooba Bandi Kahan Hai?

سیلاب کی تباہی، منصوبہ بندی کہاں ہے؟

کئی حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ موجودہ سیلابی صورتحال میں اگر نئے ڈیمز بھی بنا دیے جائیں تو اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ ڈیم محض پانی کے بہاؤ کو روکنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ چھوٹے سیلابوں سے وقتی تحفظ فراہم تو کر دیتے ہیں، لیکن بڑے سیلابوں کی صورت میں خود خطرہ بن جاتے ہیں۔ اصل ضرورت ایک جدید اور منظم نہری نظام کی ہے جو نہ صرف پانی کو محفوظ رکھ سکے، بلکہ بروقت تقسیم بھی کر سکے۔ اس مقصد کے لیے بیراجوں، نئے چینلز اور مضبوط بندوں کی اشد ضرورت ہے۔

آنے والے برسوں میں بار بار سیلاب آنے کا خدشہ موجود ہے اور ان سے بچاؤ اسی وقت ممکن ہے جب آبی نظام کو ازسرِ نو ترتیب دیا جائے۔ اگرچہ سیلاب کو مکمل طور پر روک دینا ممکن نہیں، لیکن ان کے نقصانات کو نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ برسوں کے تجربات یہ ثابت کر چکے ہیں کہ دریاؤں سے نئی نہریں نکالنے اور پائیدار بند تعمیر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اسی طرح دریائے چناب پر مزید بیراجوں کی تعمیر بھی ناگزیر ہے تاکہ سیلابی پانی کو مختلف راستوں میں تقسیم کیا جا سکے۔ پنجاب کے وہ علاقے جو اس وقت سیلاب کی زد میں ہیں، انہیں فوری طور پر بیراجوں اور نہروں کی ضرورت ہے۔

سیلاب کی روک تھام کا سائنسی حل یہ ہے کہ پانی کو اس کے فطری راستوں پر بہنے دیا جائے اور مصنوعی رکاوٹوں سے گریز کیا جائے۔ افسوس کہ دریاؤں کے قدرتی راستوں پر بے شمار ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کر دی گئی ہیں، جن کی وجہ سے تباہی کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ پانی کبھی اپنا راستہ نہیں بھولتا، چاہے اس پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائی جائیں یا کوئی اور رکاوٹ کھڑی کر دی جائے، آخرکار وہ اپنا راستہ نکال ہی لیتا ہے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ سیلاب سے بچاؤ کے طریقے کیا ہوں، ان کی وجوہات کیا ہیں، نقصانات کس حد تک بڑھ سکتے ہیں اور بچاؤ کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں، یہ سب طے کرنا عوام کا نہیں بلکہ ریاست کا فرض ہے۔ دریاؤں کے راستوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کس نے بنانے دیں؟ اربوں کھربوں روپے کس نے کمائے؟ لاکھوں لوگوں کو خطرے میں کس نے ڈالا؟ ان سب سوالوں کا جواب بھی ریاست ہی کو دینا ہے۔

ڈیمز بنانے ہوں یا بند تعمیر کرنے ہوں، نہریں کھودنی ہوں یا بیراج قائم کرنے ہوں، یہ سب فیصلے عوام نے نہیں کرنے، بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومتوں کا بنیادی فرض ہے۔ مگر ریاست عوام سے ٹیکس تو وصول کرتی ہے، لیکن انہی ٹیکسوں سے حکمران اپنی عیاشیاں پوری کرتے ہیں۔ قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے نہ مستقل منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور نہ ہی سنجیدہ اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ نتیجتاً ہر سال لاکھوں لوگ حکمرانوں کی نااہلی کی قیمت اپنے گھروں، مال مویشیوں اور قیمتی جانوں سے ادا کرتے ہیں۔ یہ حقیقت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ریاست اور حکمران اپنی اصل ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔

عوام کو بار بار بربادی کے دہانے پر چھوڑ دینا اور پھر دکھاوے کے اعلانات کرنا ریاستی بے حسی کی بدترین مثال ہے۔ جب تک ریاست سنجیدہ منصوبہ بندی کے تحت آبی نظام کو ازسرِ نو تشکیل نہیں دیتی، دریاؤں کے راستوں پر قائم تجاوزات ختم نہیں کراتی اور بیراجوں، نہروں اور بندوں کی بروقت تعمیر نہیں کرتی، تب تک ہر سال سیلاب نئی تباہی لاتا رہے گا۔ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ عوام کو اس آزمائش سے نجات دلائے اور ان کے جان و مال کی حفاظت کو اپنی ترجیح بنائے، ورنہ تاریخ ہمیشہ یہی لکھے گی کہ حکمران عیاشیوں میں مگن رہے اور عوام سیلاب میں ڈوبتے رہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari