Molana Ka Bayan Agarche U-turn Nahi
مولانا کا بیان اگرچہ یوٹرن نہیں

تمام بڑے اور چھوٹے میڈیا چینلز اور اخبارات میں گزشتہ روز سے یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے گویا اعتراف کر لیا ہے کہ "ہم نے عمران خان کو مغربی ایجنڈے کا نمائندہ کہا تھا، وہ درست نہیں تھا، اصل ایجنڈے پر تو موجودہ حکومت عمل کر رہی ہے"۔ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنان اس خبر کو یکسر غلط قرار دے رہے ہیں۔ ان کے بقول مولانا فضل الرحمان کا اصل بیان یہ تھا: "ہمیں تو عمران خان سے یہ شکوہ تھا کہ وہ مغرب کے ایجنڈے کا حامل ہے، لیکن آج کی حکومت کیا یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس نے اس ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھایا؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف اسے برقرار رکھا بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا ہے"۔
کارکنان کے مطابق میڈیا نے یہ بیان سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا، مفہوم تبدیل کیا اور ایک ایسا تاثر دیا جو بددیانتی پر مبنی ہے۔ بظاہر یہ اعتراض بجا بھی ہے، کیونکہ میڈیا نے جو جملہ "اعتراف" کے طور پر پیش کیا وہ مولانا کی تقریر میں موجود نہیں تھا، مگر اہم سوال یہ ہے کہ میڈیا نے ایسا تاثر لیا کیوں؟ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان برسوں تک عمران خان کو "یہودی ایجنٹ"، "مغربی ایجنڈے کا نمائندہ" اور "عالمی سازش کا مہرہ" قرار دیتے رہے۔ ان سخت بیانات نے جماعت کے کارکنوں میں مخالفین کے خلاف شدید نفرت پیدا کی۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے حامیوں اور دیگر ناقدین کو مذہبی و اخلاقی طور پر مشکوک ثابت کرنا معمول بن گیا، لیکن بعد میں خود مولانا نے اپنے انہی نفرت انگیز بیانات کو "سیاسی بیان" قرار دے کر پسِ پشت ڈال دیا۔ اس تبدیلی نے پرانی شدت کو کمزور کیا اور اب جب مولانا نے موجودہ حکومت پر بھی "مغربی ایجنڈے" کی پیروی کا الزام عائد کیا تو میڈیا نے اسے اسی سابقہ تناظر میں جوڑ دیا، نتیجتاً غلط تاثر پیدا ہوا۔
یہاں مگر ایک دوسرا پہلو بھی ہے، جس پر گفتگو ضروری ہے۔ اگر مولانا کے مطابق موجودہ حکومت واقعی "مغربی ایجنڈے" کو آگے بڑھا رہی ہے تو پھر یہ سوال ناگزیر ہے کہ یہی حکومت تو مولانا کی قیادت میں پی ٹی آئی مخالف تحریک کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ متحدہ حکومت کے قیام میں مولانا کا کردار نہایت مرکزی تھا۔ وہ خود ان جماعتوں کے بڑے اتحادی رہے اور اب بھی حکومتی معاملات میں ان کے معاون ہیں۔ اگر موجودہ حکومت "مغربی ایجنڈے" کا تسلسل ہے تو پھر اس کے نفاذ میں مولانا کا اپنا حصہ بھی شامل ہے۔ اس صورت میں "مغربی ایجنڈے" کا الزام مولانا کی اپنی سیاست پر بھی عاید ہوتا ہے۔ محسوس مگر یوں ہوتا ہے کہ جب کسی حکومت سے مفادات وابستہ ہوں تو وہ بہترین ہوتی ہے اور جب مفادات نہ ملیں تو وہ "مغربی ایجنڈے" کی ایجنٹ قرار پاتی ہے۔ یہ رویہ نہ اصولی ہے، نہ اخلاقی ہے۔
اس واقعے کا ایک اخلاقی پہلو اور بھی ہے، جو جمعیت کے کارکنان کی نگاہ سے اوجھل رہتا ہے۔ آج جب میڈیا نے مولانا کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تو کارکنان کا غصہ بجا بھی ہے، لیکن یہی کارکنان روزانہ دوسروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کرتے ہیں، جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں، مخالف علماء، مدارس اور مفتیان کرام کو نشانۂ الزام بناتے ہیں۔ مخالف رائے رکھنے والوں کو غدار، ایجنٹ اور دین بیزار کہہ دینا ان کے نزدیک معمول کی بات ہے۔ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ، بدتمیزی، کردار کشی اور بہتان تراشی عام ہے اور ان رویوں پر کبھی ندامت محسوس نہیں ہوتی۔ اس وقت "بیانیہ سازی"، "جذبۂ جماعت" اور "سیاسی حکمت عملی" کی آڑ لے لی جاتی ہے، لیکن آج جب خود ان کے قائد کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو وہ روز دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں تو بات ناقابلِ برداشت بن گئی۔ یہی رویہ "دوہرا معیار" کہلاتا ہے اور اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

