Molana Fazl ur Rehman Ke Naam Khula Khat
مولانا فضل الرحمن کے نام کھلا خط

قابلِ صد احترام مولانا فضل الرحمن صاحب، امیر جمعیت علمائے اسلام (ف)، امید ہے کہ آپ خیر و عافیت سے ہوں گے اور سیاست کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہوں گے۔
جناب والا! آج اس خط کے ذریعے میں آپ کی خدمت میں جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کی بڑھتی ہوئی بداخلاقی اور بے ہودہ گوئی کے رویّوں کی طرف خصوصی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ امید ہے آپ ان معروضات پر کچھ وقت ضرور عنایت فرمائیں گے۔ آپ اپنی بہترین سیاسی حکمتِ عملی کے باعث برسوں سے جماعت کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں، جو یقیناً قابلِ تحسین امر ہے۔ تاہم یوں محسوس ہوتا ہے کہ شدید مصروفیات کے باعث آپ اپنی جماعت کے کارکنوں میں اخلاقی تربیت کی کمی سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ سوشل میڈیا پر جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
اس مشاہدے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جے یو آئی سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو اخلاقی تربیت کی سخت ضرورت ہے۔ کوئی شخص جماعت کے موقف یا کسی رہنما سے معمولی اختلاف بھی کرلے تو یہ لوگ لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور الزام تراشی، گالم گلوچ اور بدتہذیبی سے بدترین انداز میں پیش آتے ہیں، حالانکہ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انسانی معاشرہ کبھی بھی ایک سوچ پر متفق نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں دوسروں کی رائے کا احترام، رواداری، تحمل اور برداشت جیسی صفات اپنانا ناگزیر ہوتا ہے، مگر سوشل میڈیا پر جے یو آئی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد عدم برداشت، تشدد آمیز مزاج اور غصے سے مغلوب نظر آتی ہے اور دینی تعلیم سے ناواقف لوگوں کی طرح رویّہ اختیار کرتی ہے۔
قبلہ! جمعیت علمائے اسلام کا معاملہ دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف ہے۔ جے یو آئی میں اکثریت علما اور مدارس کے فضلاء پر مشتمل ہے۔ اگرچہ اسلام ہر مسلمان کو اخلاقِ نبوی اپنانے کی تلقین کرتا ہے، لیکن علما اس بات کے بدرجہ اوّل مستحق ہیں کہ وہ عملی نمونہ بنیں۔ عوام بھی علما سے بلند اخلاق کی خواہش اور توقع رکھتے ہیں۔ البتہ یہ بھی درست ہے کہ علماء انسان ہی ہوتے ہیں، ان سے خطا کا سرزد ہونا کوئی انہونی بات نہیں، مگر جب کوئی شخص علمائے کرام کی جماعت سے نسبت کا دعویٰ کرتا ہو، پھر وہی شخص بداخلاقی کا مظاہرہ کرے تو تنقید اور بدگمانی کا ہدف وہ زیادہ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی کے بہت سے کارکن سوشل میڈیا پر مجموعی طور پر علماء کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔
محترم قائد! ماضی میں مولانا طارق جمیل صاحب سمیت کئی معروف علمائے کرام آپ کے کارکنوں کی بدتمیزی، طعن و تشنیع اور تحقیر کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ اختلاف کی بنیاد پر علمائے کرام پر نہایت گھٹیا الزامات لگائے گئے، انہیں غلیظ گالیوں سے نوازا گیا، حتیٰ کہ ان کی دستار اور کردار تک کو نشانہ بنایا گیا۔ حریف جماعت کے کسی رہنما سے ملاقات یا تعریف پر بھی جید علمائے کرام کی کردار کشی کی گئی۔ گویا جے یو آئی کے کارکن صرف اسی عالم دین کا احترام کرتے ہیں، جو جماعت کی سوچ کی مکمل پیروی کرے، حالانکہ خود جے یو آئی علماء کے احترام کو فرض اور ان کی توہین کو حرام قرار دیتی ہے، مگر کارکنوں کا رویہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ جمعیت کے متعدد کارکنان ملک کی معروف دینی شخصیت استاذ العلماء مفتی عبدالرحیم حفظہ اللہ، معروف مبلغ مفتی طارق مسعود اور جامعۃ الرشید و مجمع العلوم الاسلامیہ سے وابستہ علما کے خلاف شدید بدتہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مفتی عبدالرحیم صاحب کے خلاف تو کھلے عام گالم گلوچ، الزام تراشی اور بے ہودہ گوئی کی جاتی ہے۔ اس حرام عمل کی روک تھام کے لیے جماعتی قیادت کی جانب سے فوری اقدامات ناگزیر ہیں، مگر افسوس ایسا اقدام نہیں کیا جاتا۔
قائد جمعیت! آپ ایک بڑے سیاسی رہنما ہیں اور سیاست میں تنقید کوئی نئی بات نہیں، مگر اس کے باوجود آپ کے خلاف بدزبانی کی کبھی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ تمام مدارس اور تمام علمائے کرام بھی قابلِ احترام ہیں اور سب کی عزت کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ ہر عالم دین اپنی رائے رکھنے کا حق رکھتا ہے۔ جس طرح آپ کی ہر بات سے سب لوگ اتفاق نہیں کرتے، اسی طرح اختلاف رکھنے والوں کو گالم گلوچ کا نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے؟
اگر کوئی آپ کو انہی الفاظ سے مخاطب کرے جو جے یو آئی کے کارکن دوسرے علما کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ظاہر ہے آپ اور آپ کے کارکن دونوں کو تکلیف پہنچے گی۔ لہٰذا جب دوسرے علماء کے خلاف آپ کے کارکن زبان درازی کریں گے تو ان کے ماننے والوں کو بھی وہی تکلیف پہنچتی ہے۔ گالی دینا، الزام لگانا، بدتہذیبی کرنا، دشنام طرازی کرنا، یہ سب اسلامی تعلیمات کے خلاف اور حرام ہیں۔ شرعی طور پر یہ کھلا فسق ہے۔ ایسے رویّے اسلام کے نفاذ کی دعوے دار جماعت کے کارکنوں کو ہرگز زیب نہیں دیتے۔ سوشل میڈیا پر جے یو آئی کے کارکن جماعت کی محبت میں اس قدر انتہا پسندی دکھاتے ہیں کہ حمایت کرنے والوں کے لیے جنت اور اختلاف کرنے والوں کے لیے کفر تک کے فتوے لگا دیتے ہیں۔ جماعت پر تنقید کو اسلام پر تنقید اور جماعت کی تائید کو اسلام کی تائید قرار دینا فکری گمراہی کی بدترین مثال ہے۔
مزید افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جماعت میں موجود سمجھ دار اور اعتدال پسند افراد بھی غلطی کے باوجود اپنے کارکنان کا دفاع ضروری سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام حق کے ساتھ کھڑے ہونے کی تلقین کرتا ہے، مگر جے یو آئی میں صورت حال یہ ہے کہ کوئی کارکن چاہے کتنا ہی غلط، بداخلاق یا غیر شرعی عمل کرے، بجائے اصلاح کے جماعت کے افراد اس کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس جذباتی رویّے نے نہ صرف جماعت کو نقصان پہنچایا ہے، بلکہ پورے مذہبی طبقے کی بدنامی کا باعث بنا ہے۔ ایسے کئی لوگ ہیں جو صرف کارکنوں کے غیر اخلاقی رویّوں کی بنا پر جے یو آئی اور دین دار طبقے دونوں سے بدظن ہوچکے ہیں۔
مولانا صاحب! ہمیں آپ سے بھی شکوہ ہے۔ آپ پر لازم ہے کہ اپنے کارکنوں کی اخلاقی تربیت کریں، جیسا کہ مفتی عبدالرحیم صاحب اپنے طلبہ، فضلاء اور محبین کی کرتے ہیں۔ وہ اپنے فضلاء سے یہ عہد لیتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر بداخلاقی کے جواب میں کبھی بداخلاقی نہیں کرنی اور ہمیشہ صبر و تحمل کے ساتھ جواب دینا ہے۔ افسوس کہ آپ نے اپنے کارکنوں کی تربیت کرنے کے بجائے وفاق المدارس سے الگ ہونے والے مدارس کو "ڈمی" اور "جعلی" قرار دے کر کارکنوں کو مزید اشتعال دیا ہے۔ آپ کے بھائی نے بھی اختلاف رکھنے والے علماء بارے انتہائی نازیبا گفتگو کی اور منافقت کا الزام لگایا، حالانکہ منافقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور بلا ثبوت الزام واپس الزامات لگانے والے پر لوٹ آتا ہے۔ آپ کی جماعت کے کئی دوسرے رہنما بھی وقتاً فوقتاً اختلاف رکھنے والے علما کے خلاف سطحی اور ناشائستہ گفتگو کرتے ہیں، جس سے کارکنوں کو مزید شہہ ملتی ہے۔
چونکہ کارکن اور قائدین آپ سے محبت کرتے اور آپ کی بات مانتے ہیں، اس لیے اگر آپ تربیت نہیں کریں گے تو یہ سب رویّے آپ کے کھاتے میں بھی جائیں گے۔ اختلاف کرنے والے علما کے بارے میں گالم گلوچ، فاجر، خبیث، جہنمی جیسے القابات اور ننگی گالیاں دینا نہ صرف گناہ ہے، بلکہ اس کی ذمہ داری قیادت پر بھی آتی ہے۔ سیاست اپنی جگہ، مگر کارکنوں کی تربیت بھی فرض ہے۔ اس کا حساب بھی اللہ تعالیٰ ضرور لے گا۔ اگر آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ کارکنوں کا یہ رویّہ درست ہے تو پھر ناقدین کو بھی ویسا ہی حق ملنا چاہیے کہ وہ بھی آپ کے لیے وہی الفاظ استعمال کریں جو آپ کے کارکن اختلاف کرنے والے علمائے کرام کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن یقیناً آپ اس کو جائز نہیں سمجھیں گے، لہٰذا اپنے کارکنوں کے لیے بھی وہی معیار ہونا چاہیے۔
قائد جمعیت محترم! آپ کی جماعت علماء کی جماعت کہلاتی ہے۔ علما تو نبی کریم ﷺ کے وارث ہیں، ان کا اخلاق سب سے بلند ہونا چاہیے۔ مگر یہ سوال شدت سے جنم لیتا ہے کہ آخر آپ کی جماعت کے کارکنوں کے اخلاق اس قدر کیوں بگڑ گئے ہیں؟ معمولی اختلاف پر یہ لوگ اخلاقِ نبوی کو پسِ پشت ڈال کر اس شدت سے حملہ آور ہوتے ہیں جیسے بھوکا کھانے کی پلیٹ پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ جب ان سے بداخلاقی کی شکایت کی جاتی ہے تو فوراً دلیل دیتے ہیں کہ "فلاں جماعت کے کارکن بھی ایسا کرتے ہیں۔ " حضرت! انہیں سمجھا دیجیے کہ عام سیاسی جماعتوں اور علماء کی جماعت کے اخلاق میں کچھ نہ کچھ فرق ہونا ہی چاہیے۔ اخلاق زبانی دعووں سے نہیں، عمل سے ثابت ہوتے ہیں۔
مولانا صاحب! مجھے امید ہے کہ آپ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے ضرور ان کارکنان کی سرزنش کریں گے جو سوشل میڈیا پر نہ صرف جمعیت علمائے اسلام بلکہ پورے مذہبی طبقے کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور دشنام طرازی اور الزام تراشی کو ثواب سمجھ کر فروغ دے رہے ہیں۔ صرف دوسروں کی نہیں، اپنی جماعت کی بھی اصلاح کریں۔ اگر آپ اپنے کارکنوں کی تربیت کریں گے تو کل دین اور مذہب کے خلاف پھیلنے والی نفرت اور بدگمانی کے دروازے خود بخود بند ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ سمیت سب کو حق بات سننے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

