Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mehmood Azaam
  4. Mazhabi Karkunaan Ka Almiya: Gaali Daleel Ban Gayi

Mazhabi Karkunaan Ka Almiya: Gaali Daleel Ban Gayi

مذہبی کارکنان کا المیہ: گالی دلیل بن گئی

ہمارے معاشرے میں ایک خطرناک اور افسوس ناک رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ مذہبی طبقے کے نوجوان کارکنان اختلافِ رائے کے نام پر جس طرزِ گفتگو کو فروغ دے رہے ہیں، اس میں نہ سنجیدگی ہے، نہ تہذیب، نہ تربیت، نہ ہی دین و اخلاق کا کوئی شائبہ ہے۔ سوشل میڈیا نے اگرچہ اظہار کا وسیع پلیٹ فارم فراہم کر دیا ہے، مگر یہ حقیقت فراموش کر دی گئی کہ آواز کی بلندی علم نہیں ہوتی اور الفاظ کی کثرت دلیل نہیں بنتی۔

گزشتہ کچھ برسوں میں صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ بعض مذہبی جماعتوں کے کارکن اختلاف کو علمی سطح پر رکھنے کے بجائے گالی، طنز، تحقیر اور بدزبانی کا ہتھیار بنا چکے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جو لوگ خود کو دین کا محافظ کہتے ہیں، وہی دین کی بنیادی اخلاقیات کو پاؤں تلے روندتے نظر آتے ہیں۔ بظاہر دین کی غیرت کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں، مگر عمل میں بداخلاقی، الزام تراشی اور بدزبانی نمایاں ہوتی ہے۔ ان کی زبان کے زہر سے نہ علماء محفوظ ہیں، نہ مدارس، نہ وہ شخصیات جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کیں۔

یہ بات بھی عقل سے بالاتر ہے کہ مذہبی پس منظر رکھنے والے نوجوان اختلافِ رائے پر گالم گلوچ پر کیوں اتر آتے ہیں؟ الزام تراشی اور بدکلامی کو دلیل کا قائم مقام کیوں سمجھتے ہیں؟ ان رویّوں کی کوئی معقول وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اگر کوئی غیر مذہبی شخص ایسا کرے تو اسے جہالت پر محمول کیا جا سکتا ہے، مگر دین سے نسبت رکھنے والوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، اس لیے ان سے اسی قدر بلند اخلاق کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ اگر کسی کی بات غلط محسوس ہوتی ہے تو اسے علمی اور مدلل انداز میں رد کیا جائے، نہ کہ اس کی ذات، کردار، خاندان یا شخصیت پر وار کیا جائے۔

کردار کشی تو جہلا کا طریقہ ہے، اہلِ علم کا نہیں۔ افسوس یہ کہ سوشل میڈیا پر یہ رویہ سب سے زیادہ جمعیت علمائے اسلام کے بہت سے کارکنان میں نمایاں نظر آتا ہے، جو معمولی اختلاف پر ایسے غلیظ الفاظ استعمال کرتے ہیں جو نہ دینی کارکن کے شایانِ شان ہیں، نہ کسی مہذب انسان کے۔ برسوں سے یہ طرزِ عمل مسلسل جاری ہے، نہ تربیت کا کوئی موثر نظام موجود ہے اور نہ ہی بڑی قیادت کی جانب سے ان کے الفاظ کی واضح مذمت سامنے آتی ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ اگر کوئی آپ کی محبوب شخصیت، آپ کے لیڈر، آپ کے استاذ یا والد بزرگوار کو "منافق اعظم، ڈیزل، مذہب فروش، بے حیا، بے غیرت، شیطان، ڈمی، جعلی مولوی، فتنہ، خنزیر، جرنیلی تسموں سے لٹکے، انتشاری ٹولہ، دجال، ٹٹو، شرپسند، نحوست کی علامت، بوٹ چاٹ، فاسق، جہنمی، ضمیر فروش" اور اس طرح کی بے ہودہ گالیاں دے تو کیا آپ برداشت کریں گے؟ ہرگز نہیں۔ کیا آپ ان الفاظ کو کسی درجے میں مہذب سمجھیں گے؟ کبھی نہیں۔ لیکن یہی الفاظ، بلکہ ان سے بھی زیادہ بدتر جملے مذہبی کارکنان خود دوسرے بڑے علماء، مفتیان کرام اور معزز دینی شخصیات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل دین کی خدمت نہیں، بلکہ دین کی بدنامی ہے۔

جو الفاظ آپ کو اپنے لیے غلط لگتے ہیں، وہی دوسرے کے لیے بھی غلط ہوتے ہیں۔ اہلِ علم کبھی گالی نہیں دیتے۔ راہِ حق کے مسافر زبان سے نہیں، کردار اور دلیل سے جواب دیتے ہیں۔ امت کی تاریخ گواہ ہے کہ ائمہ کرام شدید علمی اختلاف کے باوجود احترام اور تہذیب سے کبھی نہ ہٹے۔ امام مالک و امام شافعی میں اختلاف تھا، مگر محبت برقرار رہی۔ امام احمد و امام ابوحنیفہ کی آراء مختلف تھیں، مگر زبان پر وقار و ادب تھا۔ ان کی علمی روایت میں دلیل تھی، چیخ پکار نہیں، تہذیب تھی، تحقیر نہیں۔ مگر آج سوشل میڈیا کے شور نے اس علمی روایت کو دفن کر دیا ہے اور اس کی جگہ انا، غصہ اور جہالت نے لے لی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ خاموشی کمزوری نہیں ہوتی۔ بعض لوگ بدزبانی کا جواب اس لیے نہیں دیتے کہ وہ تہذیب و تربیت کے تقاضوں سے واقف ہوتے ہیں۔ زبان ان کے پاس بھی ہوتی ہے، مگر وہ اسے آلودہ نہیں کرتے۔ بدتہذیب لوگ اس خاموشی کو اپنی جیت سمجھ بیٹھتے ہیں، حالانکہ شور مچانا جیت نہیں بلکہ اپنی اندرونی کمزوری کا اعلان ہوتا ہے۔ راستے میں بیٹھا کتا اگر مسلسل بھونکتا رہے تو اسے یہ خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اس نے راستہ فتح کر لیا ہے۔ یہ مثال انسان کے لیے نہیں، ایک رویّے کے لیے ہے کہ شور مچانے والا جیت نہیں جاتا، اپنی جہالت کو بے نقاب کرتا ہے۔ اختلاف فکری عمل کا حصہ ہے، مگر ادب اور تہذیب کے بغیر اختلاف، اختلاف نہیں رہتا، فساد بن جاتا ہے۔ اختلاف کی روح دلیل، وقار اور تہذیب ہے۔

اگر کسی عالم سے اختلاف ہے تو اس کی توہین نہ کریں۔ اگر کسی جماعت سے اختلاف ہے تو اسے دشمن نہ سمجھیں۔ حق کو ثابت کرنے کے لیے چیخ پکار نہیں، دلیل و کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ مذہب اخلاق سکھاتا ہے، نرمی، بردباری اور حلم سکھاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دین کے نام پر کھڑے ہونے والے دین کی بنیادی اخلاقی تعلیمات سے عاری ہوں؟ مذہبی کارکنان کے لیے ضروری ہے کہ اختلاف کے آداب سیکھیں، زبان کو پاک رکھیں، دلیل کو اپنا ہتھیار بنائیں اور اپنی نسبتِ دین کے وقار کا پاس کریں، کیونکہ زبان کا بگاڑ صرف مخالف کو نہیں گراتا، سب سے پہلے بولنے والے کو گراتا ہے۔ دین دلیل کا نام ہے، گالی کا نہیں۔ ادب کا نام ہے، الزام کا نہیں۔ کردار کا نام ہے، کردار کشی کا نہیں۔ اپنے کارکنوں کو یہ سب کچھ سکھانا مذہبی رہنماؤں پر فرض ہے، مگر وہ اپنا فریضہ ادا نہیں کررہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari