Madaris Par Ilzam Tarashi, Inteha Pasandi Ya Fikri Bad Dayanti?
مدارس پر الزام تراشی، انتہا پسندی یا فکری بددیانتی؟

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی کی جڑ مدارس کے نصاب میں پیوست ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ہزاروں مدارس ناجائز زمینوں پر قائم ہیں۔ یہ الزام نہ صرف افسوس ناک، بلکہ فکری بددیانتی اور حقائق سے صریح انحراف کی علامت بھی ہے۔
ایسے بیانات سے یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ اپنی سیاسی ناکامیوں، سماجی بے ترتیبی اور معاشی بدحالی کا ملبہ مذہبی طبقے پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی عادت میں مبتلا ہو چکا ہے۔ اگر خواجہ آصف صاحب نے کبھی کسی مدرسے کے نصاب کا مطالعہ کیا ہوتا یا کسی دینی ادارے کا عملی دورہ کیا ہوتا تو انہیں اندازہ ہوتا کہ وہاں انتہا پسندی نہیں، بلکہ قرآن و سنت کی تعلیم، اخلاق و کردار کی تربیت، فقہ، ادب، منطق، فلسفہ، تاریخ اور معاشرتی اصلاح جیسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔
مدرسے کا بنیادی مقصد انسان کو انسان بنانا، اسے اپنے رب اور مخلوق کے حقوق سے آگاہ کرنا اور اعتدال و توازن کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ اگر کبھی کوئی فرد مذہب کے نام پر غلط راستہ اختیار کر لیتا ہے تو اس کی ذمہ داری نصاب پر نہیں، بلکہ اُس کے ماحول، تربیت یا ریاستی پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے۔ نصاب تو رہنمائی کا ذریعہ ہوتا ہے، انحراف کا جواز نہیں۔
انتہا پسندی مدارس میں نہیں، بلکہ ریاستی رویوں اور پالیسیوں میں جنم لیتی ہے۔ جب ریاست اپنے مفادات کے لیے مذہب یا نوجوانوں کو استعمال کرتی ہے اور پھر وقت بدلنے پر انہی کو تنہا چھوڑ دیتی ہے تو یہی رویہ انتہا پسندی کی اصل جڑ بن جاتا ہے۔ کبھی ریاست کسی مخصوص گروہ کو سہارا دیتی ہے اور حالات بدلنے پر اسی کو خطرہ قرار دے دیتی ہے۔ یہی دوغلا پن معاشرے کو فکری انتشار، بداعتمادی اور نفرت کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔
جہاں تک پورے ملک کے مدارس میں یکساں نصاب کی بات ہے، یہ کوئی خامی نہیں، بلکہ خوبی ہے، کیونکہ اسلام کے بنیادی اصول، قرآن و حدیث کی تعلیمات اور دینی اقدار ہر جگہ ایک ہی ہیں۔ مدارس میں غریب و امیر، شہری و دیہی، سب کے لیے ایک ہی نصاب ہے۔ یہ وہ مساوات ہے جو عصری اداروں میں ناپید ہے، جہاں امیروں اور غریبوں کے لیے الگ نظامِ تعلیم رائج ہے۔
اگر خواجہ آصف صاحب دیانتداری سے جائزہ لیں تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر کہیں کسی درجے میں انتہا پسندی پائی بھی جاتی ہے تو وہ انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جنہیں انہی کی سیاسی جماعتیں تشکیل دیتی اور چلاتی ہیں۔ یہی جماعتیں مذہب، زبان، صوبے اور فرقے کے نام پر عوام کو تقسیم کرتی ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لیے عوام کے جذبات سے کھیلنا، نفرت کو ہوا دینا اور اختلاف کو دشمنی میں بدل دینا ان کا معمول بن چکا ہے۔ آج ملک کے ہر گھر میں سیاسی انتہا پسندی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ لوگ نظریات کے نہیں، شخصیات کے غلام بن چکے ہیں۔ دوستیاں اور رشتہ داریاں سیاسی وابستگیوں کی نذر ہو رہی ہیں۔
کسی پارٹی کے نعرے پر قتل اور کسی رہنما کی مخالفت پر تضحیک، یہ سب سیاسی انتہا پسندی کی علامتیں ہیں جن کا مدارس سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ ملک میں کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروری، قومی خزانے کی چوری اور آئین شکنی کے جتنے بڑے کیسز سامنے آئے، ان میں کسی مدرسے کا نام نہیں۔ پانامہ لیکس، شوگر اسکینڈلز، سرے محل یا آف شور اثاثوں کے تمام کردار وہی ہیں جو مدارس پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ اربوں روپے کے گھپلے، اختیارات کا ناجائز استعمال اور عوامی وسائل کی لوٹ مار کرنے والے دراصل وہی طبقات ہیں جو مذہبی اداروں کو بدنام کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر انتہا پسندی مدارس کے نصاب سے جنم لیتی ہے تو قومی خزانے کی لوٹ مار اور سیاسی انتہا پسندی کی درسگاہیں کہاں ہیں؟ یہ بھی بتادیجیے۔
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ہزاروں ناجائز مدارس قائم ہیں، مگر وہ اس الزام کے ثبوت میں ایک بھی مستند فہرست پیش نہیں کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد میں مدارس کی تعداد سینکڑوں میں ہے، ہزاروں میں نہیں۔ ان میں سے اکثریت باقاعدہ رجسٹرڈ ہے اور متعلقہ اداروں کی منظوری سے قائم ہے۔ اگر چند اداروں نے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اصلاحی اقدامات کرے، نہ کہ پورے مذہبی طبقے کو بدنام کرے۔ ملک کے اہم ذمہ دار کو بغیر تحقیق کے بات ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔
یہ بھی یاد رہے کہ خواجہ آصف ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جو خود "قبضے" کی سیاست پر کھڑا ہے۔ انتخابی نتائج پر قبضہ، اداروں پر قبضہ، وسائل اور اقتدار پر قبضہ، ایسے میں مدارس پر ناجائز قبضے کا الزام دینا سیاسی دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے؟ جن کی حکومتیں سودے بازیوں اور مفاہمتوں کے سہارے قائم ہوں، بلکہ جن کی اپنی نشستیں تحفے میں ملی ہوں، ان کے منہ سے مدارس کی قانونی حیثیت پر سوال سننا واقعی مضحکہ خیز ہے۔
مدارس پاکستان کا سب سے منظم، مؤثر اور مستحکم تعلیمی نیٹ ورک ہیں۔ یہ لاکھوں غریب طلبہ کو تعلیم، رہائش، خوراک اور اخلاقی تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اگر یہ ادارے نہ ہوں تو لاکھوں بچے تعلیم سے محروم رہ جائیں۔ ریاست جس میدان میں ناکام ہوئی، وہاں مدارس نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں یہی مدارس علم و تربیت کے چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ مدارس پر تنقید کرنے والے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ انہی مدارس کے فارغ التحصیل علماء نے تحریکِ آزادی کی قیادت کی، قوم کی فکری و دینی رہنمائی کی اور آج بھی مذہبی و اخلاقی اقدار کے محافظ ہیں۔
اگر یہ مدارس مٹ گئے تو معاشرہ فکری خلا کا شکار ہو جائے گا۔ خواجہ آصف جیسے رہنماؤں کو چاہیے کہ الزام تراشی کے بجائے مکالمے کا راستہ اختیار کریں۔ اگر انہیں مدارس کے نصاب پر کوئی علمی اعتراض ہے تو وہ اسے علمی بنیادوں پر پیش کریں، دینی علماء سے بات کریں، تجاویز دیں اور باہمی مشاورت سے اصلاح کی راہیں نکالیں۔ مگر محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے دینی اداروں کو نشانہ بنانا نہ صرف علمی بددیانتی ہے، بلکہ معاشرے میں مزید تقسیم پیدا کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔
مدارس پر انگلی اٹھانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اُن اداروں کی اصلاح کریں جو درحقیقت انتہا پسندی، کرپشن اور ناانصافی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اصل مسئلہ نصاب میں نہیں، نظام میں ہے، خرابی مدارس میں نہیں، ریاستی ترجیحات میں ہے۔ مدارس آج بھی علم، اخلاق اور کردار کے قلعے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ کوئی انہیں انصاف کی نظر سے دیکھے، تعصب کی عینک سے نہیں۔ اگر واقعی ہم انتہا پسندی ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مدرسے کے دروازے نہیں، اپنے رویوں، پالیسیوں اور سیاسی طرزِ عمل کے دروازے بدلنے ہوں گے۔

