JUI Ke Karkunaan Apne Rawaiyon Par Bhi Ghor Karen
جے یو آئی کے کارکنان اپنے رویوں پر بھی غور کریں

مذہبی جماعتیں معاشرے کی اخلاقی اور فکری تشکیل میں بنیادی کردار رکھتی ہیں، مگر افسوس کہ جمعیت علمائے اسلام، جو خود کو علماء کی جماعت اور ملک میں نفاذِ اسلام کی نمائندہ قرار دیتی ہے، آج اخلاقی بحران کے ایسے گرداب میں پھنس چکی ہے جس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ جماعت کے کارکنان ہی نہیں، بلکہ متعدد قائدین بھی بدتہذیبی، سخت کلامی اور الزام تراشی کو معمول بنا چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دینی مدارس، معتبر علماء، مفتیان کرام اور باوقار شخصیات بھی ان کی زبان درازی سے محفوظ نہیں رہیں۔
گزشتہ برسوں میں جمعیت کے کارکنان کی گفتگو میں گالی گلوچ، بہتان تراشی اور طعن و تشنیع میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ ایسے الفاظ جیسے "بے شرم، بے حیا، بچونگڑے، جرنیلی تسموں سے لٹکے، فتنہ، جعلی مولوی، خنزیر، شیطان، انتشاری ٹولہ، دجال، ٹٹو، فاسق، بوٹ چاٹ، نحوست کی دکان، ضمیر فروش، دلال، لعنتی، بے وقوف، شرپسند" ان کے سوشل میڈیا مباحثوں کا روزمرہ حصہ بن چکے ہیں۔ اس سے آگے کی دشنام طرازی تو ایسی ہے کہ تحریر میں لانا بھی ممکن نہیں۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ رویہ اب صرف کارکنان تک محدود نہیں رہا۔ متعدد مرکزی، صوبائی اور ضلعی قائدین بھی اسی نوعیت کی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ مدارس کو "کوٹھا" یا "ڈمی مدارس" کہنا، اختلاف رکھنے والے علماء کو "منافق" کہنا اور معزز شخصیات پر طعن و تشنیع کرنا بعض قائدین کا معمول بن چکا ہے۔ یہ طرزِ گفتگو نہ صرف دینی اقدار کی صریح توہین ہے، بلکہ ان اصولوں سے بھی سراسر انحراف ہے جن کا دعویٰ جماعت نفاذِ شریعت کے نام پر کرتی ہے۔ مزید تشویش ناک حقیقت یہ ہے کہ جماعت کے اندر کوئی مؤثر احتسابی یا اصلاحی نظام موجود نہیں۔ نہ کسی بدزبان کارکن کی سرزنش ہوتی ہے، نہ تربیتی نظام فعال ہے، نہ کوئی فورم ہے جو اس بگاڑ کو روکے۔ بعض رہنما خود سطحی گفتگو کرکے کارکنان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس سے یہ رویہ وقتی جذبات کے بجائے ایک مستقل مزاج بن گیا ہے۔
گزشتہ چند سال سے جمعیت علمائے اسلام نے جامعۃ الرشید اور مجمع العلوم الاسلامیہ کو مسلسل ہدف بنایا ہوا ہے اور اس کے کارکنان مسلسل الزام تراشی کررہے ہیں، مگر آج تک یہ ثابت نہیں کیا جاسکا کہ جامعہ کے کسی فاضل نے جے یو آئی کے کارکنان کی طرح گالی، بہتان یا ننگی زبان استعمال کی ہو۔ اس کے برعکس جمعیت کے اپنے قائدین تک ایسی زبان استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ بدزبانی کا کلچر ایک ہی طرف ہے، مخالف جانب سے ایسی گفتگو کا کوئی ثبوت موجود نہیں، مگر الزام تراشی مسلسل جاری ہے تاکہ اپنے غلط رویے کو جائز دکھایا جا سکے۔ خود مولانا فضل الرحمن نے کچھ عرصہ قبل وفاق المدارس سے الگ ہونے والے مدارس کو "ڈمی مدارس" کہہ کر کارکنان میں مزید اشتعال پیدا کیا۔ اس کے بعد کارکنان نے جس قسم کی زبان اپنائی، وہ کسی دین دشمن گروہ کے لیے بھی قابلِ قبول نہ ہوتی۔
میری فیس بک کی ایک اڑھائی سال پرانی پوسٹ کو آج جے یو آئی کے متعدد کارکنان میری "بداخلاقی" کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہے اور روایتی بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اخلاقیات کا بھاشن دے رہے ہیں۔ میں نے اُس وقت جمعیت کے کارکنان کی بدزبانی اور بے ہودہ گوئی کے جواب میں جذباتی ردِ عمل کے طور پر مجبوراً انہیں "لیموں نچوڑ، مذہب فروش اور علمائے سوء" کہا تھا۔ یہ ایک وقتی اور انفرادی جذبات تھے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہ اپنی روزمرہ کی گالم گلوچ اور ننگی زبان کو تو نظر انداز کر دیتے ہیں، مگر دوسروں کے چند سخت الفاظ انہیں قیامت دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی زبان درازی کے جواب میں جمعیت علمائے اسلام کے قائدین کے لیے وہی الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
جو الفاظ یہ لوگ ان کی جماعت سے اختلاف رکھنے والے علماء و مفتیانِ کرام کے لیے استعمال کرتے ہیں: "منافق، زندیق، بے شرم، مذہب فروش، بے غیرت، جعلی مولوی، شیطان، فتنہ، بچونگڑا، جرنیلی تسموں سے لٹکے، انتشاری ٹولہ، دجال، ٹٹو، جہنمی، ضمیر فروش، دلال، لعنتی" اور ان کے علاوہ بے شمار ننگی گالیاں جو یہ روز استعمال کرتے ہیں، مگر خوفِ خدا، ادبِ علم اور اساتذہ کی نصیحتیں اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ جمعیت کے کارکنان اپنی بدزبانی کو فتح اور دلیل سمجھتے ہیں اور اگر کوئی انہیں احترام اور مہذب گفتگو کی تلقین کرے تو اس کا جواب بھی گالی سے دیتے ہیں۔ جمعیت کے رویوں کے باعث ہی نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے طرزِ عمل پر قلم اٹھانا پڑتا ہے اور آج بھی اسی لیے لکھنا پڑا ہے۔
روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اختلاف اپنی جگہ، مگر بدزبانی، الزام تراشی اور ننگی زبان نہ دین کا حصہ ہے، نہ اخلاق کا، نہ معاشرت کا، نہ کسی مذہبی جماعت کے شایانِ شان۔ اگر جمعیت علمائے اسلام واقعی نفاذِ اسلام کا دعویٰ رکھتی ہے تو اسے سب سے پہلے اپنی صفوں میں زبان، اخلاق، برداشت، دلیل اور کردار نافذ کرنا ہوگا۔ اگر یہ اصلاح نہ کی گئی تو یہ جماعت دعوت اور اصلاح کی علامت نہیں، بلکہ انتشار، بدتہذیبی اور نفرت کا استعارہ بنتی چلی جائے گی۔ یہ معاملہ صرف جمعیت کی ساکھ کا نہیں، پورے دینی طبقے کے وقار کا سوال ہے۔ جامعۃ الرشید کے فضلاء اگر کبھی جذبات میں کوئی سخت لفظ کہہ دیں تو اسے کمزوری سمجھ کر شرمندگی محسوس کرتے ہیں، جبکہ جمعیت کے کارکنان اسی کو اپنی کامیابی اور قابلیت سمجھتے ہیں۔ یہی تربیت، یہی مزاج اور یہی اخلاق کا اصل فرق ہے۔

