Jamia Tur Rasheed Nayi Raahon Ka Ameen
جامعۃ الرشید نئی راہوں کا امین

دینی مدارس نے ہر دور میں پوری محنت اور لگن کے ساتھ دینی علوم کے فروغ اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنی ذمے داریوں کو نبھانے کی کوشش کی ہے۔ لاکھوں کروڑوں مسلمان اپنے متعلقہ مسائل میں دینی مدارس سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ تفاسیر، احادیث نبویہ، فقہ، عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاملات، معاشرت اور دیگر ضروریات پر دینی مدارس کے اساتذہ اور متعلقین ہزاروں کتب تصنیف کرچکے ہیں، جو علم کے فروغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔
ملک میں ہزاروں دینی مدارس میں لاکھوں طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں، جو یقیناََ دینی جذبے اور دین کی خدمت کی نیت سے مدارس کا رخ کرتے ہیں۔ دور جدید میں عصری تقاضوں کی رعایت رکھتے ہوئے دین کا کام کیا جائے تو یہ پورے معاشرے کے لیے بہتر، موثر اور مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ دینی مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کو بھی فروغ دینا چاہیے۔ برصغیر میں انگریزوں کے غلبہ سے پہلے دینی مدارس میں دینی اور عصری تعلیم ایک ساتھ دی جاتی تھی۔ انگریزوں نے مسلمانوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے تاکہ مسلمان پسماندہ ہوجائیں۔ ان سنگین حالات میں مسلمانوں کو کئی بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں نے دین کو محفوظ کرنے کے لیے "دارالعلوم دیوبند" کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔
ندوة العلماء نے دینی و عصری علوم کو یکجا کیا، جبکہ جدید تعلیم کے نام پر سرسید احمد خاں نے "علی گڑھ مسلم یونیورسٹی" قائم کی، تاکہ مسلمان جدید تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوسکیں۔ اگرچہ دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا طرز تعلیم ایک دوسرے سے مختلف تھا، لیکن ان کے مابین مخاصمت نہ تھی۔ دینی و عصری علوم پر مبنی نظام تعلیم نے معاشرے کو جہاں کئی بڑے مفسرین، محدثین اور فقہاء مہیا کیے، وہیں انہیں تاریخ، حساب، ہندسہ، فلکیات اور جغرافیہ کی جدید راہوں کی طرف رہنمائی کرنے والے سائنس داں بھی دیے ہیں۔
دینی مدارس میں مروج نصاب تعلیم "درس نظامی" بارہویں صدی کے مشہور عالم دین مولانا نظام الدین سہالوی نے مرتب کیا تھا۔ اس نصاب کو پڑھنے والے علوم دینیہ کے ساتھ دفتری ضروریات اور ملکی خدمات کے انجام دینے میں بھی ماہر سمجھے جاتے تھے۔
مفتی محمد شفیع عثمانی مرحوم تحریر کرتے ہیں: درس نظامی کے ابتدائی عہد میں جو فارسی زبان اور دیگر علوم، منطق، فلسفہ، ریاضی اور حساب وغیرہ کو اعلیٰ پیمانے پر رکھا گیا تھا، یہ تو ظاہر ہے کہ یہ فنون ہمارے دینی علوم نہ تھے، نہ قرآن وسنت اور علوم دینیہ کا سمجھنا فی نفسہ ان پر موقوف تھا، سکندر لودھی کے زمانہ سے پہلے ان میں سے بعض چیزوں کا تو رواج ہی نہ تھا اور ریاضی، حساب وغیرہ جو رائج تھے، وہ بھی اس لیے نہیں کہ قرآن وسنت یا دین کا سمجھنا ان پر موقوف تھا، بلکہ صرف اس لیے کہ ایک عالم دین، ملکی، سیاسی اور دفتری معلومات میں بھی قابل و ماہر تعلیم یافتہ انسان سمجھا جائے۔ فارسی زبان ظاہر ہے کہ قرآن وسنت کی زبان نہ تھی مگر سلطنت کی دفتری زبان بن گئی تھی، اس لیے تمام علمائے عصر اس میں بھی وہ مہارت پیدا کرتے تھے کہ اس میدان میں بھی وہ کسی سے پیچھے نظر نہ آئیں اور اسی وجہ سے اس درس کا فاضل حکومت میں بھی ہر عہدہ ومنصب کے قابل سمجھا جاتا تھا (جواہرالفقہ: اسلام کے قرن اول میں تعلیم کا نصاب)
دینی مدارس کے طلباء، فضلاء اور اساتذہ کو عصری علوم و فنون سے اس حد تک ضرور آشنا ہونا چاہیے کہ وہ دینی خدمات موجودہ عالمی اور قومی ماحول میں صحیح طور پر اعتماد اور ثقاہت کے ساتھ سرانجام دے سکیں اور زندگی کے دیگر شعبوں میں جا کر اصلاح احوال کے لیے کردار ادا کرسکیں۔ دینی مدارس کے فضلاء کو عملی زندگی میں جو مسائل درپیش ہوتے ہیں، ان میں ایک اہم مسئلہ معاش سے متعلق بھی ہے۔ مدارس کے بیشتر فضلاء ایک نہایت محدود آمدنی میں گزر بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ عصری تعلیم کے حصول سے بہتر روزگار کے حصول کے مواقع قدرے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے دینی مدارس میں عصری علوم کو شامل کرنا چاہیے۔
دینی مدارس میں عصری تقاضوں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ آج اگر عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے دینی مدارس اپنے اہداف ومقاصد میں مزید وسعت پیدا کرلیں تو یہ دینی مدارس اور ملک و ملت کے لیے بہت زیادہ بہتر ہوگا۔ جامعہ الرشید کراچی نے "مجمع العلوم الاسلامیہ" کے نام سے دینی مدارس کا نیا تعلیمی بورڈ قائم کیا ہے۔ نئے بورڈ کا مقصد دینی و عصری تعلیم کے امتزاج پر مبنی مشترکہ تعلیمی نظام و نصاب ہے، جس کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی اور اس ضرورت کے پیش نظر کئی ادارے کام کر رہے ہیں جن کو منظم کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے یہ نیا وفاق کردار ادا کرے گا۔ جامعۃ الرشید گزشتہ بیس سال سے دینی مدارس کی دنیا میں انقلابی کردار ادا کررہا ہے۔ یہاں درس نظامی کے ساتھ دینی و عصری تعلیم کے کئی سلسلے ہیں۔ درس نظامی کے ساتھ اعلیٰ عصری تعلیم دی جاتی ہے۔
جامعۃ الرشید نہ صرف دینی تعلیم کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہا ہے، بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں یہاں کے تعلیم یافتہ افراد کام کررہے ہیں۔ جامعۃ الرشید کا دعویٰ ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند، مدرسۃ العلوم علی گڑھ اور دارالعلوم ندوة العلماء کا مجموعہ ہے۔ جامعۃ الرشید کا ہدف اپنے فضلاء کو مدرس، خطیب، امام اور مصنف بنانے کے ساتھ ایجوکیشنسٹ، جرنلسٹ، بیوروکیٹ، آرمی آفیسرز، ججز، سول سروس افسران، لیکچرار، پروفیسر، ڈاکٹرز بنانا ہے۔ سی ایس ایس کی تیاری بھی کروائی جائے گی۔ جامعۃ الرشید کی کوشش ہے کہ اس کے فضلاء اعلیٰ سرکاری عہدوں پر پہنچ کر معاشرے میں سدھار لانے کی کوشش کریں۔
دینی مدارس کا نظام و نصاب اور مدارس میں عصری تعلیم کی ضرورت و اہمیت اہم موضوعات ہیں، جن پر ضرور غور و فکر ہونا چاہیے، لیکن سیرت النبی، تاریخ اسلام، اسلام کا معاشی نظام، جدید سیاسی نظریات کے تقابل کے ساتھ اسلام کا سیاسی نظام، جدید معاشرتی افکار کے ہمراہ اسلام کا معاشرتی نظام اور اس کے ساتھ استشراق، الحاد، مسلم ممالک پر مغرب کی فکری و تہذیبی یلغار، اسلامی ممالک اورعالم اسلام کے مسائل اور جغرافیہ کو تفصیلی طور پر مدارس میں زیر بحث لانا بھی ضروری ہے۔
اس وقت انگریزی زبان انٹرنیشنل زبان بن چکی ہے اور مغربی علماء و اسکالرز کی بہت سی اہم کتب، مغرب کی طرف سے اسلام پر فکری اور نظریاتی اشکالات واعتراضات انگریزی زبان میں موجود ہیں، ان کو سمجھنے کے لیے بھی انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنا دینی مدارس کی ذمہ داری ہے، اسی طرح دنیا بھر کے بہت بڑے علمی ذخیرے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے موجودہ دور میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا سیکھنا بہت ضروری ہے، تاکہ علماء جدید سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ بہتر انداز میں اپنی خدمات سرانجام دے سکیں۔
علمائے کرام، دینی مدارس اور اسلامی مراکز کی بڑی ذمے داری اسلامی نظریات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ موثر اور منظم طریقے سے دینی احکام کی نشر و اشاعت اور دین اسلام کے خلاف کھلنے والے ہر محاذ کا مقابلہ کرکے دین برحق کو قرآن و سنت کے سر چشمہ سے لے کر زمانے کے فہم میں ڈھال کر عصر حاضر کی زبان میں آگے منتقل کرنا ہے۔ دینی مدارس کے طلباء کی ذمے داری جلسوں میں نعرے بازی کرنا نہیں، بلکہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس ذمہ داری کو نبھالنے کے لیے دینی مدارس کو عصری تقاضوں کو بہرحال مدنظر رکھنا ہوگا، اس کے بغیر چارہ نہیں۔

