Jab Mazhabi Tabqa Bad Tehzeebi Ka Numainda Ban Jaye
جب مذہبی طبقہ بدتہذیبی کا نمائندہ بن جائے

عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا کا میدان فکری تبادلے کے بجائے لفظی جنگ کا اکھاڑا بن چکا ہے۔ یہ نہایت افسوس ناک امر ہے۔ ایک سوشل میڈیا پوسٹ متعدد بار نظر سے گزری، جس میں خود کو دینی طبقے کا ترجمان کہنے والے ایک مذہبی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے ایک نامور عالمِ دین، بزرگ مفتی اور شیخ الحدیث کے بارے میں گستاخانہ اور بدتہذیبی پر مبنی الفاظ استعمال کیے۔ یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں، آئے روز سوشل میڈیا پر مذہبی افراد کی جانب سے مختلف آراء رکھنے والے علماء کے خلاف نازیبا الفاظ اور مغلظات کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ یہ منظر تکلیف دہ ضرور ہے، مگر اب اس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ رویہ ایک عمومی وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
بدقسمتی سے دینی حلقوں کے ایک حصے نے اختلافِ رائے کو ذاتی دشمنی، تنقید کو توہین اور علمی گفتگو کو گالی میں بدل دیا ہے۔ یہ المیہ اس وقت مزید گہرا دکھائی دیتا ہے جب اس طرزِ عمل کا مظاہرہ وہ لوگ کریں جو خود دینی مدارس کے فاضل ہیں، دین کے داعی ہیں اور کسی مذہبی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جس کے ذہنوں کو علم کی روشنی سے منور ہونا چاہیے تھا، مگر ان کے رویوں نے اس روشنی کو دھندلا دیا ہے۔
مدرسے کے یہ فضلاء جب کسی سے متفق ہوتے ہیں تو اس کے فضائل کے گیت گاتے ہیں، لیکن جیسے ہی اختلاف پیدا ہو جائے تو الزام تراشی، طعن و تشنیع اور بدزبانی پر اتر آتے ہیں۔ وہ ایک طرف علماء اور مدارس کے احترام کا درس دیتے ہیں اور دوسری طرف اپنے مخالفین علماء پر الزام تراشی، گالم گلوچ اور بدتہذیبی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ گویا دینی تعلیمات ان کے لیے صرف اس وقت تک قابلِ احترام ہیں جب تک وہ ان کے ذاتی مزاج اور پسند کے مطابق ہوں۔ ان افراد کا یہ طرزِ عمل قابلِ رحم ہے، کیونکہ دینی علم رکھنے کے باوجود ان کی انتہا پسندانہ سوچ انہیں دین کی بنیادی اخلاقی تعلیمات پر عمل سے روکتی ہے۔ کبھی تو ان کے اپنے اساتذہ بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں رہتے۔
ہم نے جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں اپنے دورِ تعلیم میں مولانا زاہد صاحب جیسے متوازن اساتذہ کو دیکھا، جو ہمیشہ شدت پسندی اور انتہا پسندی سے گریز کا درس دیتے۔ وہ مذہبی تحریکوں، سانحہ لال مسجد، افغان جنگ، مسلکی اختلافات اور مذہبی رویوں کے بارے میں ہمیشہ معتدل رائے رکھتے تھے۔ ان کا موقف فکری طور پر مضبوط اور علمی طور پر مدلل ہوتا تھا، مگر بعض جذباتی طلبہ کے لیے یہ اعتدال مشکل تھا۔ وہ علمی اختلاف کو برداشت کرنے کے بجائے الزام تراشی اور بہتان کا سہارا لیتے۔ یہی جذباتی ذہن جب بعد میں مذہبی جماعتوں کا حصہ بنتا ہے، سوشل میڈیا کے میدان میں آتا ہے یا کسی بھی جگہ جاتا ہے تو اسی عدم توازن کو آگے بڑھاتا ہے۔ یہی وہ طرزِ فکر ہے جس نے دینی طبقے کے وقار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
علم کے دعوے دار اگر علم کے تقاضے پورے نہ کریں اور دین کے نمائندے اگر دین کی تعلیمات کو اپنے عمل میں نہ ڈھالیں تو ان کی تبلیغ، ان کی جماعت، ان کی تحریر اور تقریر سب بے اثر ہو جاتی ہے۔ ایک عالمِ دین یا دینی کارکن کے الفاظ صرف اس کی ذاتی رائے نہیں ہوتے، بلکہ وہ پورے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ پورے مذہبی طبقے کے مزاج کا تاثر بن جاتا ہے۔
اختلاف کوئی جرم نہیں، یہ انسانی فطرت اور فکری ارتقاء کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عقل، فہم اور مزاج میں تنوع اسی لیے رکھا تاکہ سچائی کی تلاش کا عمل جاری رہے، لیکن افسوس کہ ہم نے اختلاف کو دشمنی بنا دیا۔ اب علمی مناظرہ نہیں ہوتا، کردار کشی ہوتی ہے۔ اب علمی نقد نہیں ہوتا، شخصی حملے ہوتے ہیں۔ اب بات دلیل سے نہیں، دھمکی سے منوائی جاتی ہے۔
حالانکہ قرآنِ کریم نے اختلاف کے مواقع پر صبر، حلم اور "قولِ عدل" یعنی عدل پر مبنی گفتگو کا حکم دیا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ بھی یہی ہے کہ سخت ترین بات سن کر بھی نرم ترین جواب دیا جائے۔ آج مگر مذہبی طبقے کے بہت سے لوگ اپنی ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر دوسروں پر الزام تراشی کرتے لمحہ بھر کی دیر نہیں لگاتے۔ یہ رویہ دراصل تربیت کی کمزوری کا مظہر ہے۔ مدارس علم دیتے ہیں، مگر کردار سازی کے بغیر علم کا نور نہیں چمکتا۔ اگر درسگاہیں اخلاق اور کردار سازی کو نظرانداز کریں اور اگر مذہبی جماعتیں اپنے کارکنوں میں برداشت، حلم اور اخلاق کی تربیت نہ کریں تو پھر علم صرف ایک ہتھیار بن جاتا ہے۔
جو انسان کو نہیں، بلکہ انسانوں کو تقسیم کرتا ہے۔ اختلاف کی گنجائش ختم کر دینا دراصل ذہنی جمود اور فکری بانجھ پن کی علامت ہے۔ ایک ہی نقطۂ نظر کو مقدس ماننے والی سوچ حق کی تلاش نہیں، بلکہ خود پسندی کا مظہر ہوتی ہے۔ دین نے ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ ہر مخالف کو گستاخ کہو، بلکہ یہ سکھایا کہ "قولِ عدل" اختیار کرو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی طبقہ سب سے پہلے خود اپنا محاسبہ کرے۔ مدارس اپنے نصاب میں اخلاق و تحمل کی تربیت کو شامل کریں۔ مذہبی جماعتیں اپنے کارکنوں کو زبان کا ادب سکھائیں۔ سوشل میڈیا پر موجود مذہبی ایکٹوسٹ اس بات کا شعور پیدا کریں کہ ان کے ایک لفظ سے دین کے ہزاروں ماننے والوں کی عزت اور وقار جڑا ہے۔ اگر کسی موقع پر اختلاف ناگزیر ہو بھی جائے تو الفاظ میں شائستگی اور تہذیب باقی رہنی چاہیے۔ اگر زبان گالی پر اتر آئے، یا بات الزام تراشی تک پہنچ جائے تو یہ نہ صرف علمی بددیانتی ہے بلکہ اخلاقی زوال بھی ہے۔
دینی طبقہ اس وقت سب سے زیادہ مؤثر اور زیرِ مشاہدہ طبقہ ہے۔ اس کے ایک شخص کی لغزش پورے طبقے پر سوال اٹھا دیتی ہے۔ اس لیے اہلِ علم کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی زبان، قلم اور سوشل میڈیا کے استعمال میں وہی وقار، وہی ذمہ داری اور وہی تہذیب پیدا کریں جو ایک عالمِ دین کی شان کے لائق ہے۔ آج کے اس شور زدہ دور میں، اگر کوئی شخص اختلاف کے باوجود ادب برقرار رکھتا ہے، دلیل سے بات کرتا ہے اور بدزبانی سے گریز کرتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ وہی اصل عالم ہے، وہی اصل فاضل ہے اور وہی اس دین کا حقیقی نمائندہ ہے جو حلم، برداشت اور حسنِ گفتار کا مذہب ہے۔

