Iran Par Tanqeed, Taasub Se Niklen
ایران پر تنقید، تعصب سے نکلیں

حیرت کی بات ہے کہ ایران اور اسرائیل کے حالیہ جنگ بندی معاہدے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی لوگ ایران پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ایران نے غزہ کو نظر انداز کر دیا۔ کچھ کا مؤقف ہے کہ ایران نے شکست کھائی، بے پناہ نقصان اٹھایا، لہٰذا اسرائیل کو مکمل تباہ کیے بغیر جنگ بندی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ حد تو یہ ہے کہ بعض لوگ ایران کو امریکا اور اسرائیل کے ساتھ سازباز کرنے والا یا بزدل قرار دے رہے ہیں۔
ایسی سطحی آراء اور تعصبانہ تجزیات دیکھ کر واقعتاً افسوس ہوتا ہے، کیونکہ یہ تمام باتیں بیشتر مسلکی تعصب یا کم فہمی پر مبنی ہیں، ورنہ معروضی طور پر دیکھیں تو دنیا کا ہر ملک اپنی جنگ سب سے پہلے اپنے قومی مفاد کے لیے لڑتا ہے۔ ایران کی فلسطینیوں اور حماس سے ہمدردی کوئی راز نہیں۔ برسوں سے بہت زیادہ عملی تعاون ایران ہی کرتا آیا ہے۔ جنگ بندی معاہدے میں اگرچہ غزہ کو بھی شامل کرنا چاہیے، لیکن یہ صرف ایران کی ذمہ داری نہیں، بلکہ تمام مسلم ممالک کی ذمہ داری ہے، اس میں صرف ایران کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
اس کے مقابلے میں اکثر مسلم ممالک صرف بیانات پر اکتفا کرتے ہیں۔ جب وہ خود اسرائیل کے خلاف عملی اقدام سے گریزاں ہیں تو پھر صرف ایران سے یہ توقع رکھنا کہ وہ براہِ راست فلسطین کے لیے جنگ چھیڑ دے اور اسرائیل، امریکا اور اس کے مسلم و غیر مسلم اتحادیوں سے جنگ لڑے، کہاں کا انصاف ہے؟ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اپنے دفاع کی جنگ خود لڑی۔ اسی طرح اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو ایران نے بہادری سے جواب دیا۔ نہ صرف اسرائیل کے سامنے ڈٹا رہا بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے شدید دباؤ کو بھی خاطر میں نہ لایا۔ دوسری جانب بیشتر مسلم ممالک امریکا کو ناراض کرنے کی جرأت تک نہیں کرتے، بلکہ اس کی خوشنودی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
ایران نے اپنی قومی خودداری پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس نے جو ممکن تھا وہ کیا، کھل کر امریکا کو للکارا۔ اگر کوئی یہ شکوہ کرتا ہے کہ ایران نے غزہ کے لیے جنگ کیوں نہ لڑی تو ان دوستوں سے گزارش ہے کہ پہلے اپنے اپنے ملکوں کو اسرائیل کے خلاف جنگ پر آمادہ کریں اور اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجادیں، یا کم از ایران کے ساتھ مل کر یہ فریضہ سرانجام دیں۔ یہ کیسا پیمانہ ہے کہ جو ملک امریکا اور اسرائیل سے ٹکرا گیا، اسے بزدل کہا جائے اور جو امریکا کی خوشنودی کے لیے بے تاب ہیں، وہ بہادر کہلائیں؟ جنگ بندی کا ہونا فطری اور ضروری تھا اور یہ بروقت ہوئی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسرائیل کی مکمل تباہی تک جنگ جاری رہنی چاہیے تھی تو وہ اپنے ملک کو اس مقصد کے لیے میدان میں لائے۔
اگرچہ ایران کو اس جنگ میں نقصان ضرور اٹھانا پڑا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کوئی بڑا ہدف حاصل کیے بغیر جنگ بندی پر مجبور ہوا، جو دراصل امریکا اور اسرائیل کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ اگر انہیں فتح کی امید ہوتی تو امریکا کبھی بھی جنگ بندی کے لیے دباؤ نہ ڈالتا۔
اسرائیل نہ ایرانی حکومت کو گرا سکا، نہ کسی کٹھ پتلی حکومت کو لا سکا، نہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو کوئی بڑا نقصان پہنچا سکا۔ خود امریکی میڈیا بھی اس حقیقت کو تسلیم کر رہا ہے۔ اس کے برعکس ایران نے تمام تر پابندیوں اور عالمی دباؤ کے باوجود اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا تاثر توڑ دیا۔ تل ابیب کے شہری بھی خوف اور تباہی کا وہی منظر دیکھنے پر مجبور ہوئے جو غزہ کے نہتے شہریوں کی روزمرہ کی داستان ہے۔ ایرانی ایٹمی تنصیبات محفوظ رہیں اور "مُلّا رجیم" بھی قائم و دائم ہے۔
ایران سے سیاسی و فکری اختلافات اپنی جگہ، لیکن وقت کے سب سے بڑے یہودی و صلیبی اتحاد کے سامنے ایران کی ہمت اور مزاحمت کو سراہنا انصاف کا تقاضا ہے۔ اس نازک مرحلے پر محض مسلکی تعصب کی بنیاد پر ایران پر تنقید کرنا دانش مندی نہیں۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اگر ایران جیسا سخت پابندیوں میں جکڑا ہوا ملک امریکا، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے غرور کو خاک میں ملا سکتا ہے تو اگر پوری مسلم دنیا یکجہتی، حکمت اور عمل کے میدان میں اتر آئے تو اسرائیل کیا مجال رکھتا ہے کہ مسلمانوں کا سامنا کر سکے؟

