Imran Khan Se Iqrar Ul Hassan Tak, Siasat He Kyun?
عمران خان سے اقرار الحسن تک، سیاست ہی کیوں؟

اقرار الحسن کے ممکنہ طور پر سیاست میں آنے کی خبروں نے ایک پرانا مگر زندہ سوال پھر سے تازہ کر دیا ہے: کیا قوم کی خدمت صرف سیاست کے ذریعے ہی ممکن ہے؟ یہ سوال اس سوچ کا عکاس ہے جو ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہے کہ خدمتِ خلق کا مطلب صرف اقتدار حاصل کرنا، وزارت لینا یا اسمبلی میں پہنچنا ہے۔ گویا قوم کی خدمت کے تمام راستے کرسی پر جا کر ختم ہو جاتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سیاست میں اچھے لوگوں کی ضرورت ہے اور اس میں آنے پر کوئی قدغن بھی نہیں، مگر سچ یہ ہے کہ سیاست خدمت کا ایک ذریعہ ہو سکتی ہے، لیکن واحد ذریعہ ہرگز نہیں۔ قوم کی خدمت کے سینکڑوں راستے ہیں۔ قوم کو صرف سیاستدانوں کی نہیں، بلکہ ہر شعبے میں باصلاحیت، مخلص اور دیانت دار افراد کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب کوئی شخص اپنے میدان میں نمایاں ہوتا ہے تو اسے سیاست ہی خدمت کا اگلا زینہ نظر آتی ہے۔ گویا تعلیم، صحت، صحافت، کھیل، شوبز یا سماجی خدمت میں کامیابی کے بعد اگلا مرحلہ بس "سیاست میں آنا" ہی رہ جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا قوم کو صرف پارلیمنٹ سے ہی امید ہے؟ یا پھر یہ سب اقتدار اور مفادات کی دوڑ ہے؟
ہر چند سال بعد ایک نیا چہرہ کسی نئے نعرے، خواب یا "بیانیے" کے ساتھ سیاست میں داخل کیا جاتا ہے، جو سابقہ سیاست دانوں کو برا بھلا کہتا ہے، عوام کو امید دلاتا ہے کہ شاید اب کچھ بدلے گا، مگر کچھ ماہ گزرتے ہیں اور وہی نیا چہرہ پرانے نظام کے کولہو میں بیل بن جاتا ہے، چلتا تو رہتا ہے، مگر آگے بڑھتا نہیں۔ نظام وہی، اصول وہی، مصلحتیں وہی، جھوٹ وہی۔ صرف چہرے بدلتے ہیں اور عوام کو نئے خواب بیچے جاتے ہیں۔
اقرار الحسن صحافت میں عوام کی آواز بنے، مگر سیاست میں قدم رکھتے ہی ہر آواز پارٹی لائن سے بندھ جاتی ہے، جہاں ضمیر سے زیادہ "ڈسپلن" بولتا ہے اور سچائی پر "پارٹی پالیسی" غالب آ جاتی ہے۔ یہ صرف اقرار الحسن تک محدود نہیں۔ فن، ادب، کھیل اور سماجی خدمت جیسے مختلف شعبوں سے درجنوں نام سیاست میں آئے۔ سب کسی نہ کسی "تبدیلی" کے نعرے کے ساتھ آئے، مگر وقت نے دکھایا کہ سیاست میں آ کر وہ بھی اسی نظام کا حصہ بن گئے۔ عمران خان بائیس سال کی طویل جدوجہد کے بعد وزیراعظم بنے، تبدیلی کا وعدہ کیا، مگر وہ خود کہتے ہیں کہ میرے پاس اختیار نہیں تھا۔ آج وہ جیل میں سزا بھگت رہے ہیں۔ وہ بھی اسی نظام کے شکنجے میں آ گئے جسے بدلنے کے لیے سیاست میں قدم رکھا تھا۔ وزیراعظم بننے کے لیے سب ووٹ کی دہائی دیتے ہیں، مگر یہ سب جانتے ہیں کہ کامیابی ووٹ سے نہیں ملتی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ سیاست میں خدمت کے لیے نہیں، بلکہ اثر و رسوخ، پروٹوکول، طاقت اور عیاشی کے لیے آتے ہیں۔ عوام جنہیں مسیحا سمجھتی ہے، وہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر خود مسیحائی بھول جاتے ہیں۔ یوں عوام کی حالت جوں کی توں رہتی ہے، بس چہرے اور نعرے بدل جاتے ہیں، حالانکہ قوم کو سیاست سے زیادہ خدمت کی ضرورت ہے اور وہ خدمت بے شمار شعبوں میں بکھری پڑی ہے۔ قوم کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ کروڑوں پاکستانی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے، انہیں معیاری تعلیمی اداروں، مفت تعلیم اور شعور کی ضرورت ہے۔
قوم کو صحت کی ضرورت ہے۔ ہزاروں افراد علاج نہ کروانے کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ انہیں مفت علاج، بہترین ہسپتالوں اور باصلاحیت ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ قوم کو عدل کی ضرورت ہے۔ سچی صحافت کی ضرورت ہے۔ اخلاقیات کی ضرورت ہے۔ معیشت کی ضرورت ہے۔ ایسے کسانوں، مزدوروں اور صنعت کاروں کی ضرورت ہے جو ملک کو خودکفیل بنائیں۔ اگر ان شعبوں میں کام کرنے والے لوگ اپنے اپنے مقام پر ایمانداری اور خلوص سے کام کریں تو یہی حقیقی انقلاب ہوگا، کیونکہ قومیں اسمبلیوں سے نہیں، اداروں سے بنتی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے سیاست سے ہٹ کر خدمت کا حق ادا کیا۔ نہ ان کے پاس اقتدار تھا، نہ پروٹوکول، نہ سیکیورٹی مگر ان کی نیت، محنت اور خلوص نے دل بدل دیے۔ انہوں نے خدمت کو سیاست کی زنجیر سے آزاد کر دیا۔ ان کا نام آج بھی زندہ ہے، کیونکہ قوم کی خدمت عہدے سے نہیں، اخلاص سے ہوتی ہے۔ ہمیں یہ سوچ بدلنی ہوگی کہ سیاست ہی خدمت کا واحد دروازہ ہے۔ تاریخ نے ہمیشہ انہیں زندہ رکھا ہے جو عہدے سے نہیں، اپنے عمل سے بڑے ہوئے۔ قوم کی خدمت کے لیے سیاست میں آنا ضروری نہیں، ضمیر کا زندہ ہونا ضروری ہے۔

