Ilm Ki Taqseem, Etihad Se Inteshar Tak
علم کی تقسیم، اتحاد سے انتشار تک

ملتان کے تاریخی دارالعلوم خیرالمدارس کے اسٹیج پر ملک بھر سے جمع علمائے کرام کے سامنے قائدِ جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا ایک جملہ گونج دار انداز میں ادا ہوا، مگر اس کی بازگشت نے علمی و دینی حلقوں میں ایک گہرا ارتعاش پیدا کر دیا۔ مولانا نے فرمایا: "وفاق المدارس اور اتحاد المدارس دینیہ سے وابستہ ادارے ہی اصل مدارس ہیں، باقی نئے اتحادوں اور تنظیموں سے جڑے ادارے، ڈمی مدارس ہیں، ہم ان ڈمی مدارس کو تسلیم نہیں کرتے"۔ یہ الفاظ بظاہر کسی وقتی تناظر میں ادا کیے گئے ہوں، مگر ان کے اثرات نہایت دور رس اور سنگین ہیں، کیونکہ یہ بات محض چند اداروں کی تردید نہیں، بلکہ ہزاروں مدارس، ان کے اساتذہ، طلبہ اور ان کے علمی و دینی کردار کی نفی کے مترادف ہے۔
علم و دین کے میدان میں کسی ادارے کو "اصل" اور دوسرے کو "ڈمی" کہنا دراصل علم کی حرمت کو تنظیمی خانوں میں تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔ دینِ اسلام نے علم کو کبھی وفاقی شناخت یا تنظیمی وابستگی سے مشروط نہیں کیا۔ علم کی بنیاد ہمیشہ اخلاص، تقویٰ اور محنت پر رہی ہے۔ اگر کسی ادارے کے نصاب میں قرآن و سنت کی تعلیم دی جا رہی ہے، فقہ و تفسیر پڑھائی جا رہی ہے، اصلاحِ نفس اور خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کیا جا رہا ہے تو وہ ادارہ حقیقی معنوں میں دینی خدمت انجام دے رہا ہے، خواہ وہ کسی بھی وفاق یا تنظیم سے وابستہ ہو یا ہر وفاق سے آزاد ہو۔
پاکستان میں تقریباً چالیس ہزار سے زائد دینی مدارس رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں وفاق المدارس العربیہ اور تنظیم المدارس اہلِ سنت کے علاوہ بھی ہزاروں مدارس ایسے ہیں جو تعلیمِ دین کے فروغ میں سرگرمِ عمل ہیں۔ اگر ایک وفاق کے سربراہ یہ فرمائیں کہ صرف ان کے ماتحت ادارے "اصل مدارس" ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ باقی ہزاروں مدارس، لاکھوں طلبہ اور ہزاروں اساتذہ کو غیر معتبر قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ طرزِ فکر نہ صرف علمی انصاف کے منافی ہے، بلکہ اتحادِ بین المدارس کے اس تصور کو بھی نقصان پہنچاتا ہے جو امتِ مسلمہ کے علمی اتحاد کی اساس ہے۔
مدارسِ دینیہ نے ہمیشہ معاشرتی اصلاح، دینی بیداری، اخلاقی تربیت اور فکری استحکام میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ انہی اداروں نے مساجد کو آباد رکھا، دینی اقدار کو زندہ کیا اور نسلِ نو کو اسلام کی بنیادوں سے جوڑے رکھا۔ ایسے اداروں کو "ڈمی" قرار دینا نہ صرف علمی ناانصافی ہے، بلکہ ان مخلص علما و فضلا کی محنت کی توہین بھی ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔ اگر یہ منطق تسلیم کر لی جائے کہ صرف کسی خاص تنظیم سے وابستہ ادارے ہی "اصل" ہیں تو کل کوئی وفاق المدارس العربیہ کو جمعیت علمائے اسلام کی سیاست سے جڑنے پر اس کی اصلیت پر بھی سوال اٹھا سکتا ہے۔ اسی سوچ کا تسلسل کسی دن یہ نعرہ بھی پیدا کر سکتا ہے کہ صرف ایک مکتبِ فکر ہی "سچا مسلمان" ہے، باقی سب مشکوک ہیں۔ یہی طرزِ فکر انتشار، نفرت اور فرقہ واریت کو جنم دیتا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے بعض کارکنان کی جانب سے وضاحت دی گئی کہ مولانا کا اشارہ ان بورڈز کی طرف تھا جو حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں قائم ہوئے، خصوصاً جامعۃ الرشید کے مجمع العلوم الاسلامیہ کی جانب ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایک سیاسی رہنما کو کسی علمی یا تعلیمی ادارے سے اس درجہ مخالفت کا حق کس بنیاد پر حاصل ہے؟ جامعۃ الرشید جیسے ادارے نے تعلیم، تحقیق، ابلاغ اور عملی میدان میں جو نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں، وہ کسی بھی بڑے وفاق کے لیے باعثِ فخر ہونے چاہییں، نہ کہ نفرت یا تعصب کا سبب۔ علم کی دنیا میں مقابلہ نہیں، بلکہ تعاون ہونا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ مدارس کی اصل طاقت ان کی علمی میراث، تدریسی نظام اور خدمتِ دین کا جذبہ ہے، نہ کہ ان کی تنظیمی وابستگی۔ علم کی روشنی کو کسی مخصوص وفاق یا سیاسی شناخت کا محتاج بنانا دراصل علم کی توہین ہے۔ تاریخ کے عظیم محدثین، فقہاء اور مفسرین کسی تنظیم یا وفاق کے رکن نہیں تھے، مگر ان کا علم آج بھی پوری امت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ کیا ہم انہیں بھی "ڈمی" کہہ سکتے ہیں؟ قیادت کا منصب جوڑنے کا ہوتا ہے، توڑنے کا نہیں۔ قائدِ جمعیت جیسے بزرگوں کے الفاظ محض جملے نہیں ہوتے، وہ فکری سمت متعین کرتے ہیں۔ اگر ان کی زبان سے تقسیم اور نفی کا پیغام جائے گا تو وہ امت کے اتحاد کو کمزور کرے گا۔ ایسے وقت میں جب مدارس پہلے ہی مالی دباؤ، حکومتی پالیسیوں اور رجسٹریشن کے مسائل سے دوچار ہیں، انہیں مزید "اصل" اور "ڈمی" کی تقسیم میں بانٹنا نہایت افسوسناک عمل ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن خود کو تمام مدارس، مساجد، علماء اور مذہبی حلقے کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ ان سے تو کسی قسم کے انتشار، نفرت اور تعصب پر مبنی الفاظ ہرگز ادا نہیں ہونے چاہیے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تمام مدارس دین کے قلعے ہیں، چاہے وہ کسی بھی وفاق یا تنظیم سے منسلک ہوں۔ یہ قلعے کسی فرد یا جماعت کے دم سے قائم نہیں، بلکہ انہی مدارس کے دم سے تنظیمیں وجود میں آئی ہیں۔ علم کی دنیا میں "ڈمی" اور "اصل" کا فرق نہیں ہوتا، وہاں معیار صرف نیت، اخلاص، خدمت اور علمیت سے طے ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے ہی اہلِ علم کو "جعلی" قرار دینے لگیں تو پھر باطل کے مقابلے کے لیے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قیادت اپنے بیانات میں وسعتِ نظر، احتیاط اور اتحاد کا پہلو غالب رکھے۔ مدارس کا احترام، تمام مسالک کے ساتھ عدل اور علم کے فروغ میں باہمی تعاون ہی وہ راہ ہے جو امت کے اتحاد اور دین کی سربلندی کی ضمانت بن سکتی ہے۔ علم تقسیم نہیں کیا جا سکتا، اسے صرف پھیلایا جا سکتا ہے اور وہی امت کامیاب ہے جو علم کے چراغ بجھانے کے بجائے انہیں مزید روشن کرتی ہے۔

