Ilhad, Aaj Ka Sab Se Bara Fitna
الحاد، آج کا سب سے بڑا فتنہ
دنیا میں مذہب اور خدا کے منکر ہر دور میں موجود رہے ہیں، لیکن حیرت انگیز مادی ترقی اور سائنسی ایجادات کے بطن سے الحاد کی ایک عالمگیر تحریک نے جنم لیا، جو یورپ کو نگل کر دیگر ممالک کی طرف بڑھ رہی ہے۔ الحاد لادینیت اور خدا کے وجود کا انکار کرنے کو کہا جاتا ہے۔ آسمانی ہدایت تین بنیادی عقائد توحید، نبوت و رسالت اور آخرت پر مشتمل ہے۔ اس لیے ان میں سے کسی ایک کے انکار کو بھی الحاد کہا جائے گا۔ ملحدین روئے زمین پر تمام مذاہب کا انکار کرتے ہیں اور ان کے نزدیک کائنات صرف موجود اور محسوس کا نام ہے۔
غیر محسوس، غیر مرئی، روحانی دنیا اور آخرت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ سب انسانی توہمات اور خیالات ہیں۔ الحاد کا مرکز یورپ کو قرار دیا جاتا ہے۔ تیرہویں سے سترہویں صدی کے دوران یورپ میں کلیسا اور سائنس دانوں کے درمیان چپقلش چلتی رہی۔ مذہبی علماء نے عقل و منطق اور مشاہدے کی بنیاد پر حاصل ہونے والے سائنسی علم کو طاقت سے دبانا چاہا اور اس قسم کے نظریات رکھنے والے مفکرین کو سخت سزائیں دیں۔ یورپ میں کلیسا کے خلاف تحریکیں چلیں۔ لوگ کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا۔
طویل کش مکش کے بعد مغرب میں لادینیت اور الحاد کا دور شروع ہوا۔ کلیسا مخالف تحریک کے علم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں۔ الحاد کی بنیاد پر سیکولر ازم کا نظریہ وجود پذیر ہوا۔ فلسفیانہ اور ملحدانہ نظریات نے اہل یورپ کی اشرافیہ کو بری طرح متاثر کیا۔ ان کے ہاں تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ہی ملحد اور لادین ہونا تھا۔
سیکولر ازم کے نظریے کا فروغ دراصل مذہب کی شکست اور الحاد کی فتح تھی۔ اہل مغرب نے اپنے سیاسی، عمرانی اور معاشی نظاموں کو مذہب کی روشنی سے دور ہو کر خالصتاً ملحدانہ بنیادوں پر استوار کیا۔ مذہب کو چرچ تک محدود کر دیا گیا۔ سیکولر ازم کے نتیجے میں الحاد اہل مغرب کے نظام حیات میں غالب قوت بن گیا۔ ان کی اکثریت عملی طور پر خدا، نبوت و رسالت اور آخرت کا انکار کر چکی ہے۔ یورپ خود کو الحاد سے محفوظ نہیں رکھ سکا۔ الحاد وہاں کا سب سے بڑا مذہب بن چکا ہے اور زمانے میں جدت آنے کے ساتھ یہ الحاد پوری دنیا میں پھیلتا جا رہا ہے۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی ایجاد سے الحاد کا فتنہ ایک منظم اور مربوط تحریک کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ انٹرنیٹ نے ملحدین کو منظم کرنے اور اپنے منصوبے پھیلانے میں بھرپور مدد فراہم کی ہے۔ فیس بک، ٹویٹر، کتب، مقالات، اخبارات اور مجلات میں الحاد سے متعلق مضامین کی بہتات ہے۔ فکر و فلسفہ کے خوبصورت عناوین سے سجی کتب میں الحاد کی تعلیم دی جاتی ہے اور ملحدین ویب سائٹس تک نوجوانوں کی رسائی بالکل آسان ہے۔ سوشل میڈیا کے کئی"پلیٹ فارمز" الحادی افکار کو عام کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں لاکھوں لوگ شامل ہیں۔
آج کے ملحدین کا سب سے بڑا ٹارگٹ دین اسلام ہے، کیونکہ باقی مذاہب اپنی عبادت گاہوں تک محدود ہیں۔ صرف دین اسلام ہی ایک مکمل ضابطہ حیات اور انسانیت کے مسائل کا سب سے جامع اور کامل حل پیش کرتا ہے۔ الحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہونے کے ناطے ملحدین کی توپوں کا رخ اسلام کی جانب ہے اور نت نئے شبہات، اعتراضات اور تاریخ و سیرت سے ضعیف و موضوع روایات و عبارات کی بنیاد پر دین اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے ہیں۔ ملحدین کی طرف سے ہمہ وقت اسلام کی مقدس تعلیمات اور اسلام کے بنیادی عقائد کو ہدف تنقید بنا کر ان پر جارحانہ حملے کیے جاتے ہیں، تاکہ لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے کنفیوز اور متزلزل کیا جاسکے۔
ذات باری تعالیٰ کا انکار کیا جاتا ہے۔ نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی ذات اقدس پر بہتان تراشی کی جاتی ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں گھٹیا اور لغو زبان استعمال کی جاتی ہے۔ اشکالات اور وساوس پیدا کرکے اسلام کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرکے اسلام بیزار کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔
پاکستان میں بھی ملحدین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ان کی اکثریت پڑھی لکھی ہے۔ اب تو ان کی طرف سے فلم، ٹی وی اور پرنٹ میڈیا میں بھی ڈھکے چھپے انداز میں اسلامی احکام اور ارکان اسلام کے خلاف شکوک پھیلائے جاتے ہیں۔ عصر حاضر میں ملحدین کا آسان ہدف یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات ہیں۔ عقائد کی کمزوری اور دینی علوم پر دسترس نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ورغلانا آسان ہوتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں موجود نظام تعلیم نے مادیت کو اتنا فروغ دیا ہے کہ وہاں دین ثانوی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اب یہ لوگ بھی مغرب کے ذہن سے سوچتے ہیں۔ بہت سے لوگ غیر مسلم مصنفین اور مغربی مستشرقین کے لٹریچر سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لٹریچر کا مقصد ہی مذہب، دین اسلام، بنیادی عقائد اور اسلامی تعلیمات سے متنفر کرنا ہوتا ہے۔
الحاد سے متاثرہ لوگ اپنے سوالات، اشکالات، وساوس اور شکوک و شبہات لے کر روایتی علماء، اور صوفیاء کے پاس جاتے ہیں، وہ خاموش رہنے کا حکم دیتے ہیں۔ ایک طرف تو ان کے سوالوں کے جوابات نہیں ملتے تو دوسری طرف مخالفین کی مذہبی فکر، مذہب اور مذہبی معاشرت پر اعتراضات کا ایک دفتر جمع ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں ملحدین اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کوئی شخص اپنے وسوسے کا اظہار کرے تو اسے سختی سے جھٹلانے کی بجائے حکمت عملی سے اس کے سوال کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔
الحاد معاصر دنیا کا مقبول ترین نظریہ بن چکا ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ الحاد کی بھینٹ چڑھ کر خدا اور مذہب کے مطلق انکار کا نظریہ اپنا رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی مغرب کی طرح لوگ مذہب، خدا، رسول اور آخرت کے بارے میں تشکیک کا شکار ہورہے ہیں۔ عصر رواں میں ملحدین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جس کا سبب غیر محدود تصورات سے پیدا ہونے والی آزاد سوچ، تشکیک پسند استشکاف اور مذہب پر ہونے والی بے جا تنقید ہے۔ الحاد کے حق میں استدلال سائنس، فلسفہ، عمرانیات اور تاریخ سے کیا جاتا ہے۔
آج کا سب سے بڑا فتنہ الحاد ہے، اسے تشکیک یا سوفسطائیت کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ عصر حاضر میں الحاد کا دقت نظر سے تجزیاتی و تحلیلی مطالعہ کرنے کی بہت ضرورت ہے، اس سلسلے میں ملحدین کے پھیلائے ہوئے جزوی شبہات و اعتراضات کے ساتھ الحاد کی اساسیات اور اس کے متنوع اسباب پر نگاہ ڈالنے کی بھی ضرورت ہے۔ الحاد کی اساسیات کا تجزیہ ضروری ہے کہ ملحدین کے بنیادی امور و دعاوی اور ان امور کا ماخذو مصدر کیا ہے۔ علمائے ملت اسلامیہ کو بیدار مغز ہونے اور پوری تیاری کے ساتھ اس فتنے کا مقابلہ دانشورانہ، محققانہ سوچ اور مدلل انداز بیان و انداز تحریر سے کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھنا اور پیش آمدہ مسائل سے نبرد آزما ہونا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ آپسی اختلافات بھلا کر جدید الحاد کا ایک منظم و مربوط رد پیش کیا جائے۔ ملحدین کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیے جائیں اور ان کے اعتراضات و اشکالات کی بنیادوں پر علمی و تحقیقی کام کیا جائے۔ آج کا فتنہ الحاد پہلے سے خطرناک اور نقصان دہ ہے، کیونکہ آج الحاد و لادینیت کی نشرواشاعت کے وسائل اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی آسانی سے مہیا ہیں، ماضی میں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔