Ikhlaqi Dawat o Tarbiyat, Aik Mujaddidana Amal
اخلاقی دعوت و تربیت، ایک مجددانہ عمل

سوشل میڈیا بلاشبہ اس دور کی ایک بنیادی ضرورت ہے، لیکن یہی ضرورت آج ایک نہایت سخت امتحان اور کڑی آزمائش بھی بن چکی ہے۔ ہر شخص اس کی دنیا میں مصروف ہے، مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے بے خبر رہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر لکھے جانے والے ہر لفظ، ہر جملے اور ہر ردّعمل کی اللہ ربّ العزت کے ہاں جواب دہی ہوگی۔ یہاں ہونے والا ہر عمل کئی گنا زیادہ اثر رکھتا ہے، اسی لیے یہاں ذمہ داری بھی عام زندگی کے مقابلے میں کہیں بڑھ جاتی ہے۔
بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر وہ طبقات جن سے اعلیٰ اخلاق، کردار، برداشت اور تہذیب کا بلند ترین معیار مطلوب تھا، وہی اس میدان میں سب سے زیادہ اخلاقی زوال کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ مذہبی کارکنان الزام تراشی، توہین، جھوٹے پروپیگنڈے، گالی گلوچ، شخصیات کی تذلیل اور علمائے کرام کی بے ادبی جیسے کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہیں۔
حالانکہ انہی لوگوں کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان اور قلم کے ہر لفظ میں وقار اور خوفِ خدا ملحوظ رکھیں۔ افسوس کہ جنہوں نے معاشرے کو اخلاق و کردار کا درس دینا تھا، وہ خود ان بیماریوں کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں۔ بعض مذہبی سیاسی جماعتوں میں اخلاقیات کا بحران اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کارکنان کی تربیت کے بجائے خود بعض رہنما اپنی تقاریر اور بیانات میں سخت لہجے، الزام تراشی، بداخلاقی، تمسخر اور اشتعال انگیزی کو ہوا دیتے ہیں۔ جب قیادت کا رویہ ایسا ہو تو کارکنان کا مزاج بھی خود بخود اسی سانچے میں ڈھل جاتا ہے اور پھر انہیں بدتہذیبی، گالم گلوچ اور کردار کشی نیکی محسوس ہونے لگتی ہے۔
ایسے ماحول میں اگر کوئی شخصیت نوجوانوں کو صبر، حلم، گفتگو کے آداب اور اختلاف کے اصول سکھانے کھڑی ہو جائے تو یہ ایک عظیم، تجدیدی اور مجددانہ خدمت ہوتی ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی کچھ ایسی شخصیات موجود ہیں جو دین کے اخلاقی حسن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہی میں ایک نمایاں نام مفتی عبدالرحیم صاحب کا ہے۔ انہوں نے نہ صرف سوشل میڈیا کے منفی رویوں کے خلاف آواز اٹھائی، بلکہ اپنے طلبہ، کارکنان اور محبین سے باقاعدہ یہ عہد لیا کہ وہ کبھی گالی، بے ہودگی، بہتان یا الزام تراشی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
افسوس کہ کئی مذہبی کارکنان ان پر بھی طعن و تشنیع اور الزام تراشی کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنے وابستگان کو یہی وصیت کی کہ ہر بداخلاقی کا جواب اخلاق سے دیا جائے اور سوشل میڈیا کی گندگی کو کردار کے حسن سے دھویا جائے۔ یہی ان کی بڑائی، ظرف اور تربیت کا کمال ہے۔ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ان سے محبت کرنے والے ہمیشہ شائستہ، باوقار اور مدلل انداز میں بات کرتے ہیں، چاہے سامنے والا کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو۔
مفتی عبدالرحیم صاحب کے پیش کردہ رہنما اصول دراصل اس دور کی وہ ضرورت ہیں جنہیں اپنانا نہ صرف ہر مذہبی طبقے کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے، بلکہ سب کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو یاد دلایا کہ سوشل میڈیا بھی عبادت اور اخلاق کا میدان ہے۔ یہاں بھی زبان کا ادب فرض ہے، یہاں بھی حیا لازم ہے اور یہاں بھی دوسروں کی عزت کا احترام ایمان کا حصہ ہے۔ اگر مذہبی طبقات ان اصولوں کو اپنا لیں تو یقیناً سوشل میڈیا کا ماحول نفرت، تحقیر اور بداخلاقی سے پاک ہو جائے گا اور ہمارا معاشرہ دوبارہ اُس علمی و اخلاقی روایت کی طرف لوٹ سکتا ہے جو صدیوں مسلمانوں کی پہچان رہی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ اخلاق، کردار اور گفتگو کا حسن دین کا جمال ہیں۔ آج ہمیں بحیثیت امت اس وبا کا مقابلہ کرنا ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے مزاجوں میں سرایت کر رہی ہے۔ ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اپنی زبان کی حفاظت کرے، دوسروں کی عزت کا احترام کرے اور اختلاف کو بھی دلیل، وقار اور شائستگی کے ساتھ پیش کرے۔
اللہ کرے کہ ہمارے مذہبی کارکنان، جماعتیں اور ان کے رہنما اس حقیقت کو سمجھیں اور اپنی صفوں میں اخلاق کا وہ چراغ دوبارہ روشن کریں جس نے اس امت کو ہمیشہ ممتاز رکھا۔ مفتی عبدالرحیم صاحب جیسے اہلِ دل اس روشنی کو تازہ کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مذہبی جماعتیں، مدارس اور وابستگان اس روشنی کے مسافر بن جائیں۔

