Hadiqa Kiani Aur Ulma e Karam, Haqiqat Kya Hai?
حدیقہ کیانی اور علمائے کرام، حقیقت کیا ہے؟

حدیقہ کیانی بلاشبہ ایک اچھی خاتون ہیں، جو اپنے فن کے ساتھ ساتھ مصیبت زدہ عوام کے شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی زلزلہ متاثرین کے درمیان، کبھی بے سہارا یتیموں کے ساتھ اور اب حالیہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بھی میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ یہ سب ان کی نیکی ہے اور یقیناً اس کا اجر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور ملے گا۔ البتہ سوال یہ ہے کہ کسی ایک کی نیکی کو بنیاد بنا کر دوسروں کے خلاف نفرت کا بازار کیوں گرم کیا جاتا ہے؟ ایسی متعدد تحریریں نظر سے گزریں جن میں حدیقہ کیانی کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے علمائے کرام پر تنقید کی گئی، بلکہ بعض نامور علماء کے نام لے کر انہیں نشانہ بنایا گیا۔ لکھا گیا کہ: "دیکھو! یہ گلوکارہ تو خدمتِ خلق کے لیے میدان میں ہے، مگر مولوی صاحبان کہیں نظر نہیں آتے"۔
یہ طرزِ فکر سراسر ناانصافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی ملک پر کوئی بڑی آفت آئی، چاہے 2005ء کا زلزلہ ہو، 2010ء کا بدترین سیلاب یا موجودہ سیلابی تباہ کاریاں، سب سے پہلے جن قافلوں کو متاثرہ علاقوں میں پہنچتے دیکھا گیا وہ مدارس کے طلبہ، علمائے کرام، مذہبی شخصیات اور دینی جماعتیں ہیں۔ آج بھی ان کی فلاحی تنظیمیں پنجاب، خیبرپختونخوا اور دیگر متاثرہ علاقوں کی بستیوں میں جا کر لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچا رہی ہیں، بھوکوں کو کھانا کھلا رہی ہیں، بے لباس کو کپڑے پہنا رہی ہیں اور بے گھر افراد کو عارضی سائبان فراہم کر رہی ہیں۔ یہ وہ خدمات ہیں جو اگرچہ میڈیا کی نمایاں سرخیوں میں کم جگہ پاتی ہیں، لیکن حقیقت کے میدان میں ان کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔
درجنوں مذہبی شخصیات اپنی زندگیاں خدمتِ خلق کے لیے وقف کر چکی ہیں۔ ان کی تنظیمیں لاکھوں خاندانوں کی کفالت کر رہی ہیں۔ مگر چونکہ ان کا طریقہ کار خاموشی، اخلاص اور سادگی پر مبنی ہے، اس لیے بعض لوگوں کو یہ "غائب" دکھائی دیتے ہیں۔ یہ رویہ صرف ناانصافی ہی نہیں، بلکہ منفی سوچ کی علامت ہے۔ کسی ایک کی نیکی کو ضرور سراہنا چاہیے، لیکن اس بہانے دوسروں کی کردار کشی کرنا ہرگز درست نہیں۔ اگر ہم ملک بھر کی فلاحی تنظیموں کی فہرست بنائیں تو اکثریت انہی مذہبی اداروں اور جماعتوں پر مشتمل ملے گی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ "علماء صرف فتوے دیتے ہیں" یا "یہ صرف چندہ اکٹھا کرتے ہیں" سراسر غیر منصفانہ بات ہے۔
علماء اور مذہبی ادارے ہمیشہ خدمت کے میدان میں صفِ اول میں رہے ہیں۔ وہ بھی پانی میں اترتے ہیں، زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر متاثرین کو بچاتے ہیں، ان کے کارنامے بے شمار اور شاندار ہیں۔ دینی مدارس کے کارکنان، مذہبی جماعتیں اور ان سے وابستہ فلاحی تنظیمیں آج بھی لوگوں کے لیے ڈھال بنی کھڑی ہیں، مگر افسوس کہ ہمارا معاشرہ علماء و مدارس کی کسی چھوٹی سی لغزش پر تو شور مچا دیتا ہے، لیکن ان کی بے مثال خدمات کو اجاگر کرنے کے بجائے انہیں نظر انداز کرتا ہے۔
حدیقہ کیانی اپنی جگہ نیک کام کر رہی ہیں اور اللہ انہیں اس کا اجر دے گا، لیکن ان کے عمل کو بنیاد بنا کر علماء کے خلاف نفرت پھیلانا کسی طور درست نہیں۔ نیکی، نیکی ہے، خواہ وہ کوئی فنکار کرے یا کوئی عالم دین کرے، مگر ایک کو سراہنے کے لیے دوسرے کو گرانا انصاف کے منافی ہے۔ آج پاکستان کو تقسیم نہیں، بلکہ یکجہتی اور باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ اصل پیغام یہ ہونا چاہیے: آؤ! مصیبت زدہ بہن بھائیوں کے دکھ بانٹنے میں سب مل کر حصہ لیں۔ چاہے کوئی فنکار ہو یا عالم، کوئی ڈاکٹر ہو یا تاجر، سب کا مقصد ایک ہونا چاہیے۔ یہی طرزِ فکر معاشرے کو آگے بڑھا سکتی ہے۔

