Fuzla e Madaris Ke Ijtimaat Kyun Zaroori Hain?
فضلاء مدارس کے اجتماعات کیوں ضروری ہیں؟

یہ دور تیز رفتار تبدیلیوں، فکری انتشار، تہذیبی یلغار اور معاشرتی بکھراؤ کا ہے۔ ایسے ماحول میں دینی مدارس کی ذمہ داریاں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کے بوجھ کو صحیح طریقے سے اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ فضلاء مدارس ایک منظم، باشعور، باوقار اور مثبت کردار کے ساتھ سامنے آئیں۔ مدارس محض تعلیمی ادارے نہیں، بلکہ صدیوں پر محیط علمی وراثت، روحانی تربیت، اخلاقی تہذیب اور فکری استقامت کے مراکز ہیں۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ اسی مقدس سلسلے کے امین بنتے ہیں۔ اسی لیے وقت گزرنے کے ساتھ فضلاء مدارس کے باقاعدہ اجتماعات کی ضرورت کئی گنا بڑھ گئی ہے، کیونکہ یہ اجتماعات مدارس، فضلاء، طلبہ اور مجموعی دینی ماحول کو مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
مدرسہ استاد اور شاگرد کے درمیان ایسا رشتہ قائم کرتا ہے جو رسمی اور وقتی نوعیت کا نہیں ہوتا۔ یہ نسبت محض نصابی تعلیم سے نہیں بنتی، بلکہ محبت، ادب، اخلاص، روحانیت اور تربیت کے برسوں پر مشتمل ماحول میں پروان چڑھتی ہے۔ عملی زندگی کی مصروفیات میں یہ رشتہ کمزور پڑنے لگتا ہے اور فضلاء اجتماعات اسے تازہ کر دیتے ہیں۔ شاگرد اپنی دعوتی، علمی اور عملی کامیابیاں اساتذہ کے سامنے رکھتے ہیں، جبکہ اساتذہ انہیں نئے حالات، نئے چیلنجز اور نئے تقاضوں کی روشنی میں رہنمائی دیتے ہیں۔ یہی تعلق آگے چل کر امت میں فکری استحکام، اعتدال اور اجتماعی حکمت کا سرچشمہ بنتا ہے۔
دنیا تیز رفتاری سے بدل رہی ہے۔ سوشل میڈیا، جدید فلسفے، تہذیبی یلغار، لبرل ازم، سیکولر ازم اور الحاد کے اثرات نئی نسل کے ذہنوں کو گہرائی سے متاثر کر رہے ہیں۔ ایسے میں فضلاء کے اجتماعات اس لیے ناگزیر ہیں کہ یہاں ان نئے فکری چیلنجز کا تعارف بھی کرایا جاتا ہے اور ان کا حکیمانہ، مدلل اور متوازن جواب بھی سکھایا جاتا ہے۔ آج کے دور میں ایک عالمِ دین کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض روایتی علوم ہی نہیں، بلکہ جدید فکری سوالات، میڈیا بیانیے اور تہذیبی مباحث پر بھی مضبوط گرفت رکھتا ہو۔
مدارس میں بنیادی علوم پڑھائے جاتے ہیں، لیکن عملی زندگی میں ایسے کئی تقاضے ہیں جن کے بغیر آج مؤثر دینی خدمت ممکن نہیں۔ جدید خطابت، مؤثر کمیونیکیشن، ابلاغ کی نئی جہتیں، سوشل میڈیا کا مثبت استعمال، تنظیمی صلاحیت، عوامی نفسیات کی سمجھ، تدریس کی جدید تکنیک اور دعوت و اصلاح کے نئے اسلوب کے بغیر ایک عالم معاشرے میں اپنا مطلوبہ کردار ادا نہیں کر سکتا۔ فضلاء کے اجتماعات ان مہارتوں کو سیکھنے، بہتر بنانے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ایسے اجتماعات فاضل کو صرف عالم نہیں رہنے دیتے، بلکہ اسے معاشرے میں صاحبِ حکمت رہنما بناتے ہیں۔
فضلاء کا باہمی تعلق بھی ایک عظیم قوت ہے۔ جب سینکڑوں ہزاروں فضلاء ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو محض ملاقات نہیں ہوتی، بلکہ تجربات، خیالات، منصوبے اور حکمتیں ایک نئی ترتیب میں ڈھلنے لگتی ہیں۔ تجربات کا تبادلہ نئے زاویے پیدا کرتا ہے، باہمی تعاون دینی و سماجی خدمت کے نئے راستے کھولتا ہے اور مشترکہ حکمت عملی ایک منظم اجتماعیت کو جنم دیتی ہے۔ یہ نیٹ ورک دینی کام کی رفتار اور معیار دونوں کو بڑھا دیتا ہے۔ مدارس کی ترقی بھی فضلاء کی رہنمائی، تجربے اور مشاورت کے بغیر ممکن نہیں۔ جو فاضل عملی دنیا میں رہ کر حالات کا مشاہدہ کرتا ہے، وہ مدارس کے لیے قیمتی آراء لے کر آتا ہے۔
نصاب کی بہتری، عصری تربیت، طلبہ کی فکری و اخلاقی رہنمائی، جدید مہارتوں کا اضافہ اور انتظامی حکمت عملی، یہ سب وہ پہلو ہیں جنہیں فضلاء کے تجربات بھرپور طریقے سے روشن کرتے ہیں۔ فضلاء کے اجتماعات مدارس کی ترقی کے لیے اجتماعی مشاورت کی مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ یہ اجتماعات موجودہ طلبہ کے لیے بھی بے حد مفید ہیں۔ جب کامیاب فضلاء آ کر اپنی عملی زندگی کے تجربات بیان کرتے ہیں اور یہ دکھاتے ہیں کہ دینی تعلیم نے ان کے لیے عزت، خدمت اور قیادت کے کیسے مواقع پیدا کیے تو طلبہ کے اندر ایک نئی امید اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کا یقین پختہ ہوتا ہے کہ دینی تعلیم ایک باوقار مستقبل کا راستہ ہے۔
آج امتِ مسلمہ کو سب سے زیادہ ضرورت اتحاد، تحمل، باہمی احترام اور مثبت اجتماعی کردار کی ہے۔ اختلافات کی شدت، جذباتیت اور بدگمانی نے ہمیں کمزور کر دیا ہے۔ فضلاء کے اجتماعات اس بگاڑ کا بہترین علاج ہیں۔ یہ فکری ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں، اختلافات کو علمی دائرے میں رکھتے ہیں، دلوں میں قربت لاتے ہیں اور اجتماعی تعمیرِ امت کے لیے متحد سوچ پیدا کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی فضلاء کے اجتماعات کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔
افسوس کہ بعض نوجوان مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود سوشل میڈیا پر بدزبانی، طعن و تشنیع اور الزام تراشی جیسے رویوں سے دین کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ بعض مذہبی سیاسی جماعتیں بھی فضلاء کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں، جو انتہائی افسوسناک طرزِ عمل ہے۔ مدارس کی ذمہ داری ہے کہ فضلاء کو وقتاً فوقتاً جمع کرکے ان کی تربیت کریں تاکہ یہ سوشل میڈیا اخلاقیات، علمی تنقید کا سلیقہ، اختلاف کے اصول، زبان کی پاکیزگی اور آن لائن دعوت کے آداب اچھی طرح سیکھ سکیں۔ جب فاضل علم و اخلاق کا پیکر ہوگا تو مدرسہ بھی سرخرو ہوگا۔
فضلاء کے اجتماعات عالمِ دین کو عملی زندگی کے مسائل سے نمٹنے کی حکمت بھی دیتے ہیں۔ معاشی مشکلات، تدریسی مواقع کی کمی، مساجد کی ذمہ داریاں، خاندان کی توقعات اور سماجی چیلنجز یہ سب وہ مسائل ہیں جن کا حل تجربہ، حکمت، صبر اور بصیرت کے ساتھ ہی ممکن ہے اور اجتماعات اسی شعور کو مضبوط کرتے ہیں۔ تحقیق، مطالعہ اور تحریر کی تربیت بھی ان اجتماعات کا بنیادی حصہ ہونی چاہیے۔ بسیاری فضلاء عملی زندگی میں مصروف ہو کر مطالعہ و تحقیق سے دور ہو جاتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں چیزیں عالمِ دین کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر دینی تعلیم کے جدید ماڈلز، تربیتی طریقوں اور مختلف ممالک کے دینی نظام کا تعارف بھی ضروری ہے، تاکہ فضلاء کا ذہن وسیع ہو اور وہ جامع نظر کے ساتھ دین کی خدمت کر سکیں۔
آج معاشرہ صلح صفائی، تنازعات کے حل، فیملی گائیڈنس، یوتھ کونسلنگ اور سماجی رہنمائی کے لیے علماء کی طرف دیکھتا ہے۔ فضلاء کے اجتماعات انہیں ان حساس میدانوں میں مؤثر کردار ادا کرنے کی حکمت دیتے ہیں، کیونکہ آج کے انسان کا مسئلہ صرف علمی نہیں، نفسیاتی اور سماجی بھی ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ فضلاء کے اجتماعات محض روایتی ملاقاتیں نہیں، بلکہ فکری، تربیتی، روحانی، سماجی اور تنظیمی تحریک ہیں۔
ان کا مقصد فضلاء کو جدید دور کے مطابق تیار کرنا، مدارس کو مضبوط کرنا، طلبہ کو روشن مستقبل دکھانا، امت کو متحد کرنا، معاشرے کی اصلاح کرنا اور دینی خدمات کے لیے اجتماعی قوت پیدا کرنا ہے۔ آج کے دور میں مدارس کا مستقبل اجتماعیت میں ہے اور دینی خدمات کا تسلسل اجتماعی حکمت میں پوشیدہ ہے۔ یہی اجتماعات وہ بنیاد فراہم کرتے ہیں جن پر آنے والی نسلوں کی فکری حفاظت اور امت کی اجتماعی تعمیر ممکن ہے۔

