Engineer Muhammad Ali Mirza Ke Naam Khuda Khat
انجینیئر محمد علی مرزا کے نام کھلا خط

محترم جناب، انجینیئر محمد علی مرزا صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوشل میڈیا سے اطلاع ملی کہ عدالت نے آپ کی ضمانت منظور کرلی ہے اور آپ رہائی پا چکے ہیں۔ اس رہائی پر میں آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خیر کے کاموں میں مشغول رکھے، شر کا سبب بننے سے محفوظ رکھے اور آپ کی زندگی، علم اور دعوت کو امت کے لیے نفع بخش بنائے۔
محترم سکالر!
حراست کے ایام انسانی زندگی میں بعض اوقات ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں جو عام حالات میں ممکن نہیں ہوتے۔ انسان تنہائی میں اپنے آپ سے مکالمہ کرتا ہے، اپنے رویوں، اسلوبِ بیان اور دعوتی ترجیحات پر غور کرتا ہے۔ کبھی شدت کی طرف مائل ہوتا ہے اور کبھی اپنی بے اعتدالیوں کا احساس ہوتا ہے۔ امید ہے کہ ان ایام نے آپ کو غور و فکر کا موقع دیا ہوگا اور آپ نے اپنے اسلوب اور اندازِ بیان پر نئے سرے سے نظرثانی کی ہوگی۔
عزیز و محترم!
یہ حقیقت کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ آپ کے چاہنے والے بہت ہیں اور اختلاف رکھنے والے بھی کم نہیں۔ اختلاف کبھی علمی سطح پر ہوتا ہے اور کبھی جذباتی کیفیت اختیار کر لیتا ہے۔ اہلِ علم کے درمیان اختلاف فطری امر ہے، لیکن اختلاف کو دشمنی میں بدل دینا کسی مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ تاہم یہ سوال اہم ہے کہ کون سے امور نے آپ کی گفتگو کو اس حد تک موضوعِ بحث بنایا کہ معاشرے میں بے چینی پیدا ہوئی، لوگ اشتعال میں مبتلا ہوئے اور آپ کو قانون کی گرفت میں آنا پڑا۔ امید ہے کہ آپ نے ان امور اور رویوں پر غور کیا ہوگا جن سے اشتعال پیدا ہوا اور آئندہ ایسا انداز اپنانے سے احتیاط کریں گے جس سے انتشار پیدا ہو۔
محترم جناب!
مذہبی طبقے کا ایک بڑا حصہ یہ اعتراض کرتا ہے کہ آپ نے درسِ نظامی اور دینی مدارس سے روایتی علمی سلسلے سے تعلق نہیں رکھا، لیکن اجتہادی اور دقیق مسائل پر رائے دیتے ہیں۔ دینی علوم کا یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور اس سے بے نیازی کبھی کبھار غلط فہمیوں کا سبب بنتی ہے۔ اکثر شکایت یہ بھی ملتی ہے کہ آپ ائمہ اربعہ، محدثین، صوفیہ، اکابرِ امت یہاں تک کہ صحابہ کرامؓ تک کے بارے میں بعض جملے ایسے استعمال کرتے ہیں جو اہل ادب کے معیار سے کم محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے نوجوانوں میں اکابر کا احترام مجروح ہوتا ہے اور اختلاف دشمنی میں بدل سکتا ہے۔ دین ہم تک واسطوں کے ذریعے پہنچا ہے اور بزرگان دین کے ان واسطوں کو مشکوک قرار دینا نسل نو کے ساتھ ہرگز خیرخواہی نہیں۔
محترم مرزا صاحب!
آپ فرقہ واریت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں، لیکن بعض فکری، فقہی اور تاریخی مسائل پر براہِ راست گفتگو اختلافات بڑھا دیتی ہے۔ عوام اکثر پیچیدہ علمی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جس کے نتیجے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ نصوص سے حکم اخذ کرنے کے لیے اصولِ فقہ، اصولِ حدیث، لغت، بلاغت اور فقہی مناہج کی مہارت لازمی ہے۔ اگر یہ مہارت نہ ہو تو "اپنی مرضی کا دین" جنم لینے لگتا ہے اور آپ کے رویوں سے بعض اوقات ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
جناب مرزا صاحب!
بعض احادیث کی صحت و ضعف پر آپ کی آراء محدثین کے مناہج سے مختلف محسوس ہوتی ہیں، جس سے نوجوانوں میں ائمہ حدیث پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ آپ کی بعض آراء ائمہ اربعہ سے ہٹ کر ہوتی ہیں، جس سے فقہی تنہائی اور شدت پیدا ہوتی ہے۔ اختلاف جرم نہیں، لیکن امت کے متفقہ ورثے سے مستقل انحراف اضطراب اور دینی معاملات میں آزاد مزاجی پیدا کرتا ہے، حالانکہ اہل علم کی اکثریت کی رائے ہے کہ آپ کی اپنی علمی حیثیت بھی مسلم نہیں۔
محترم جناب!
آپ کا اندازِ گفتگو بعض اوقات مناظرانہ محسوس ہوتا ہے۔ علمی دنیا میں نرمی، حلم، وقار اور حکمت بنیادی شرط ہیں۔ سوشل میڈیا کے ماحول میں سخت جملے آسانی سے غلط معنی پیدا کر دیتے ہیں۔ آپ اپنی تحقیق کو "ریسرچ" کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن عوام اسے "فتویٰ" سمجھ لیتے ہیں اور یہ غلط فہمی کئی بار انتشار کا سبب بنتی ہے۔ اجماع امت کا اجتماعی اثاثہ ہے اور بار بار انحراف بے چینی پیدا کرتا ہے۔ صحابہ کرامؓ، خلافت راشدہ اور تاریخِ اسلام کے موضوعات پر نئی تعبیرات بعض اوقات غلط فہمیوں کا سبب بنتی ہیں، جس سے لوگ آپ کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔
عزیز و محترم!
بزرگانِ دین اور اکابرِ امت بڑے احترام کے حق دار ہیں۔ ان کی لغزشوں کا ذکر اگر کبھی ضروری ہو بھی تو ان کی عظمت اور خدمات کے توازن کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ائمہ کے اختلافات تضاد نہیں، بلکہ ہاتھ کی انگلیوں کی طرح ہیں، الگ الگ، مگر اصل ایک۔ سب نے دین کی خدمت کی ہے، اس لیے کسی سے نفرت پیدا کرنا امت کے لیے مفید نہیں، بلکہ نقصان دہ ہے۔
محترم مرزا صاحب!
اہلِ علم کے نزدیک اختلافِ رائے کوئی نئی بات نہیں، لیکن طریقۂ اختلاف ہمیشہ وقار، شائستگی اور حسنِ اخلاق کا تقاضا کرتا ہے۔ آپ پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ آپ کا لہجہ اکثر سخت اور تلخ ہوتا ہے۔ جب آپ اکابرِ امت، محدثین، فقہاء، صوفیہ یا ائمہ دین کا ذکر کرتے ہیں تو انداز ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بے ادبی کا شائبہ پیدا ہو رہا ہو۔ گفتگو کا اسلوب ایسا ہونا چاہیے کہ دل آزاری یا تحقیر شامل نہ ہو۔ اگر آپ علمی گفتگو کو اہلِ علم کے طریقہ کے مطابق وقار، نرمی، حکمت اور شائستگی کے ساتھ پیش کریں، نامور شخصیات کا ذکر احترام کے دائرے میں کریں اور اختلافی مسائل پر شائستہ انداز اپنائیں تو نہ صرف آپ کی بات زیادہ قابلِ قبول ہوگی، بلکہ آپ کو غیر ضروری مخالفت اور تنازع کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
عزیز و محترم!
علم ہمیشہ ادب اور حلم کے دروازے سے داخل ہوتا ہے۔ اگر اندازِ گفتگو میں نرمی پیدا ہو جائے تو اختلاف بھی خیر کا ذریعہ بن جاتا ہے، ورنہ سخت لہجہ کبھی کبھی سچائی کو بھی غیر مؤثر کر دیتا ہے۔ اکابرِ امت کے ساتھ امت کی بڑی تعداد کی عقیدت وابستہ ہے۔ اگر سخت لہجے سے ان کی عظمت کو ٹھیس پہنچے تو لوگوں میں اشتعال پیدا ہوتا ہے اور اس کا سبب آپ بنتے ہیں۔
جناب!
اگر میری کوئی بات ناگوار گزری ہو تو اسے خیرخواہی سمجھ کر نظر انداز کر دیجیے۔ میری آرزو صرف یہ ہے کہ آپ کی دعوت زیادہ نتیجہ خیز، معتدل اور رحمت والی ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، علم میں برکت دے اور آپ کی زبان کو امت کے لیے خیر کا ذریعہ بنائے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خیرخواہ

