Do Riyasti Hal, Aman Ke Naam Par Sazish
دو ریاستی حل، امن کے نام پر سازش

دنیا میں اگر کوئی ملک آپ کی تعریف میں دو جملے بھی بولے تو اس کے پیچھے لازماً کوئی مفاد چھپا ہوتا ہے۔ امریکا اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ماضی میں پاکستان کو ڈالرز کے عوض "مزدوری" کے کئی تلخ تجربات ہو چکے ہیں اور آج پھر تعریفوں اور دوستانہ جملوں کے پردے میں ایک نیا کھیل رچایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان سے متعلق خوش کن باتوں کا ڈراپ سین وزیراعظم پاکستان کے اُس ٹویٹ سے ہوا، جس میں انہوں نے صدر ٹرمپ کے بیس نکاتی منصوبے کو خوش آمدید کہا۔
وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے بیس نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہیں جو غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ فلسظینی عوام اور اسرائیل کے درمیان پائیدار امن خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے اور اس موقع پر انہوں نے صدر ٹرمپ کی قیادت اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے کردار کو بھی سراہا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ امریکا پاکستان کو اسرائیل نوازی کی راہ پر ڈالنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ معاہدے، امریکا کے ساتھ بڑھتی قربت اور اقوام متحدہ میں پاکستان وفد میں اسرائیل نواز ذہن رکھنے والی خاتون کی شمولیت اسی بڑی تصویر کا حصہ ہیں۔
وزیراعظم نے یہ اعلان پاکستان واپسی سے پہلے ہی کر دیا، حالانکہ اُس وقت تک وائٹ ہاؤس نے منصوبے کی تفصیلات باضابطہ جاری بھی نہیں کی تھیں۔ اس جلد بازی نے پاکستان کو شاید پہلا مسلم ملک بنا دیا جس نے کھل کر اس منصوبے کی تائید کی۔ یہ منصوبہ دراصل امن کے بجائے اسرائیل کو مزید تقویت دینے کی سازش ہے۔
سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت دو ریاستی حل کی کھلے عام حمایت کر رہی ہے۔ دو ریاستی حل دراصل اسرائیل کو جائز تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے ساتھ ظلم ہے، بلکہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دوٹوک مؤقف کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ قائداعظمؒ نے واضح کہا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جو فلسطینی عوام کی زمین پر قبضہ کرکے وجود میں آئی اور پاکستان اسے کسی صورت تسلیم نہیں کرے گا۔ دو ریاستی حل کا مطلب وہی ہے جیسے مسئلہ کشمیر کو یوں"حل" کیا جائے کہ ایک حصہ بھارت کے پاس رہے اور دوسرا ہمیں دے دیا جائے اور پھر کہا جائے کہ انصاف ہوگیا۔ یہ انصاف نہیں بلکہ جبر کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔
آج فلسطینی عوام کے ساتھ یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جن رہنماؤں کو ان کے حق میں بولنا چاہیے، وہی اس نام نہاد امن منصوبے کو "راہِ نجات" قرار دے رہے ہیں۔ یہ منافقت میں لپٹی ہوئی حمایت ہے، جو زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
گریٹ گیم کی تصویر اب واضح ہو چکی ہے۔ اسرائیل کو خطے کا مرکز بنا کر مسلم دنیا کو اس کے سامنے جھکانا مقصد ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ طاقت اور جبر کے ذریعے کبھی امن قائم نہیں ہوا۔ امن ہمیشہ انصاف سے جنم لیتا ہے۔ فلسطینی عوام کو ان کا جائز حق دیے بغیر کوئی منصوبہ پائیدار ثابت نہیں ہو سکتا۔
اب ضرورت ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں وہی جراتمندانہ روش اپنائے جس کی بنیاد قائداعظمؒ نے رکھی تھی۔ ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی کہ ہم نے وقتی تعلقات اور عارضی مفادات کی خاطر ایک مظلوم امت کے ساتھ بے وفائی کی۔ خدا مظلوم فلسطینی عوام کو اس منافقانہ حمایت کے دھوکے سے محفوظ رکھے اور ہمیں ان کے حق میں کھڑے ہونے کی توفیق دے۔

