Bazar Mein Kitab Kyun Nahi
بازار میں کتاب کیوں نہیں

ایک کتاب کی تلاش میں قریبی مارکیٹ کی خاک چھاننا پڑی، مگر نہ مطلوبہ کتاب ملی، نہ ہی کتابوں کی دکانیں نظر آئیں۔ کتاب نایاب نہیں تھی، مگر کتابیں بیچنے والی دکانیں ضرور نایاب ہو چکی ہیں۔ قدم قدم پر برانڈز کا شور، ریسٹورنٹس کے ذائقے اور موبائل شاپس کی بھرمار ہے، مگر کتابوں کی خوشبو مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ یہ منظر کسی ایک علاقے یا شہر تک محدود نہیں۔ اب چھوٹی آبادیوں سے لے کر بڑی سوسائٹیوں تک، ہر جگہ شاپنگ مالز، بوتیکس، گروسری اسٹورز اور کیفے تو دکھائی دیتے ہیں، مگر کتابوں کی دکانیں خال خال نظر آتی ہیں۔ کتاب کے سوا ہر چیز دستیاب ہے۔
جیسے جیسے معاشرہ ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھتا گیا، کتاب پیچھے رہتی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ بازار میں وہی چیز بکتی ہے جس کی طلب ہو اور کتاب اب طلب میں نہیں رہی۔ ہر چیز کی ڈیمانڈ ہے، مگر کتاب کی نہیں۔ اسی لیے ہر چیز آسانی سے مل جاتی ہے، مگر کتاب نہیں ملتی۔ دل چاہتا ہے کہ ہر بازار، ہر سوسائٹی اور ہر کالونی میں کتابوں کی دکانیں بھی اسی طرح ہوں جیسے کپڑوں، جوتوں یا فاسٹ فوڈ کی دکانیں ہوتی ہیں، مگر ایسا ہونا مشکل ہے، کیونکہ کتاب کی طلب ہی ختم ہو چکی ہے۔
کتاب سے بے رغبتی دراصل معاشرتی زوال کی علامت ہے۔ کتاب تہذیب، شعور، فکر اور علم کی نمائندہ ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں کتابوں کی رونق ماند پڑ جائے، وہاں ذہنی پسماندگی خود بولتی ہے۔ یہ صرف علم سے دوری نہیں، بلکہ سوچ کے زوال کی علامت ہے۔ ہم اپنی ظاہری آسائشوں پر لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں، مگر کتاب پر چند سو روپے خرچ کرنے میں تامل کرتے ہیں۔ کسی برانڈڈ کپڑے یا موبائل کی قیمت پوچھنے میں جھجک نہیں ہوتی، مگر کتاب کے نرخ سن کر اکثر کہا جاتا ہے: "اتنی مہنگی کتاب؟" حالانکہ وہی شخص روزانہ چائے، فاسٹ فوڈ یا فالتو مشاغل پر اس سے کہیں زیادہ خرچ کر دیتا ہے۔ یہ رویہ بتاتا ہے کہ ہم نے علم کو عیش و عشرت کے مقابلے میں غیر ضروری شے سمجھ لیا ہے۔
جب معاشرہ کتاب سے منہ موڑ لیتا ہے تو جہالت، تعصب، سطحی سوچ اور غیر سنجیدگی خود بخود پھیل جاتی ہے۔ تب گفتگو میں گہرائی نہیں رہتی، سوچ میں وسعت نہیں آتی اور کردار میں توازن ختم ہو جاتا ہے۔ آج اکثریت کے لیے کتاب ایک "بورنگ چیز" بن چکی ہے۔ ان کے ہاتھوں میں کتاب نہیں، موبائل ہے۔ ان کی نگاہوں کے سامنے علم کے صفحات نہیں، بلکہ سوشل میڈیا کی چمکتی اسکرین ہے۔ انہیں مطالعے سے وہ لطف نہیں ملتا جو چند سیکنڈ کے ویڈیوز میں محسوس ہوتا ہے۔ جو قوم اپنی نسلوں کے ہاتھ میں کتاب نہیں دے سکتی، وہ انہیں مستقبل کی روشنی بھی نہیں دے سکتی۔ ہمارے کالجز اور یونیورسٹیز سے تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کتاب خرید کر نہیں پڑھی۔ بہت سوں نے تو غیر نصابی کتاب کا مطالعہ کبھی کیا ہی نہیں۔ کبھی لائبریری نہیں گئے، کبھی کتابوں سے دوستی نہیں کی۔
کتابوں کی دکانوں کا کم ہونا دراصل ہماری ذہنی ترجیحات کا آئینہ دار ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو ہر چیز خریدنا سکھایا، مگر کتاب خریدنے کی عادت نہیں دی۔ اگر والدین خود کتاب دوست نہیں ہوں گے تو بچے مطالعہ کیسے پسند کریں گے؟ اگر ہم اپنے معاشرے کو دوبارہ فکری بلندی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو ہمیں کتاب سے رشتہ جوڑنا ہوگا۔ اسکولوں، کالجوں، مساجد، دفاتر اور گھروں میں کتب بینی کا ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ کتاب صرف علم کا ذریعہ نہیں، بلکہ انسان کی تربیت کا سب سے حسین وسیلہ ہے۔ یہ دلوں کو نرم، ذہنوں کو روشن اور معاشروں کو مہذب بناتی ہے۔ اگر ہم نے کتاب کھو دی تو دراصل ہم نے اپنی پہچان کھو دی۔

