Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mehmood Azaam
  4. Barelvi Maktab e Fikr, Aksariyat Be Wuqat Kyun?

Barelvi Maktab e Fikr, Aksariyat Be Wuqat Kyun?

بریلوی مکتب فکر، اکثریت بے وقعت کیوں؟

بریلوی مکتبِ فکرکے معروف عالمِ دین مولانا حامد سعید کاظمی نے ایک اجلاس میں نہایت درد بھرے لہجے میں کہا: "ہم ستر فیصد ملکی آبادی کا حصہ ہیں اور ہماری کوئی وقعت و حیثیت نہیں۔ فضل الرحمٰن ایک بیان دیتا ہے تو پوری دنیا میں اس کا وزن محسوس کیا جاتا ہے اور ہم یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہمارا بیان اخبار میں جگہ پائے گا یا نہیں"۔ یہ جملے محض شکوہ نہیں، بلکہ ایک پورے طبقے کے زوال اور بے وزنی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگرچہ "ستر فیصد" والا تخمینہ مبالغہ آمیز لگتا ہے، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ بریلوی مکتبِ فکر پاکستان میں سب سے بڑی مذہبی اکثریت رکھتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد کے باوجود یہ مکتب فکر ادارہ جاتی اور سیاسی سطح پر غیر مؤثر کیوں ہے؟

تاریخ پاکستان کا تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ دیوبندی مکتب نے مدارس، تنظیموں اور فکری اداروں کے ذریعے اپنی شناخت منوائی۔ دینی مدارس پر خصوصی توجہ دی، جس سے ہر شعبہ میں افراد میسر آئے۔ ان کے ہاں تعلیم، تحقیق، تنظیم اور قیادت کا ایک واضح نظام موجود ہے۔ اس کے برعکس بریلوی مکتب کی بنیاد مزارات، خانقاہوں اور گدیوں پر رکھی گئی، جو روحانی وابستگی کا سرچشمہ تو بنے، مگر فکری و تنظیمی مرکز نہ بن سکے۔ یہاں قیادت علم و صلاحیت کے بجائے موروثیت، شہرت اور خاندانی وراثت سے منتقل ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ فکری تسلسل ٹوٹ گیا، ادارہ جاتی نظم بکھر گیا اور قیادت شخصیات تک محدود رہ گئی۔

بریلوی سیاست ہمیشہ ردِعمل سے جنم لیتی رہی ہے۔ گستاخیِ رسول ﷺ کا کوئی واقعہ ہو یا سیاسی محرومی کا احساس، جذبہ عروج پر ہوتا ہے، مگر پالیسی سازی، مکالمہ اور طویل المدتی حکمتِ عملی کا فقدان نمایاں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریکیں وقتی طور پر تو جذبات بھڑکاتی ہیں، مگر دیرپا اثر نہیں چھوڑتیں۔ بریلوی قیادت زیادہ تر مشائخ، گدی نشینوں اور واعظین پر مشتمل رہی ہے۔ ان میں سے اکثر نے نہ تحقیق و تصنیف میں کوئی نمایاں کردار ادا کیا، نہ جدید فکری مباحث میں۔ منبر پر زیادہ تر مناقب، کرامات، واقعات اور روایتی خطابات سنائی دیتے ہیں۔ نتیجتاً تعلیم یافتہ طبقہ ان سے دور ہوا اور یہ مکتب عوامی مذہب کی سطح تک محدود رہ گیا۔ جبکہ دوسری طرف دیوبندی مکتب نے علمی جرائد، تحقیقی مراکز اور فکری فورمز قائم کیے جنہوں نے جدید فکری چیلنجز میں بھرپور حصہ لیا۔

بریلوی مکتب کا ایک بڑا مسئلہ مرکزی نظم کا فقدان بھی ہے۔ نہ کوئی ایسا ادارہ جو مدارس، تنظیموں اور قیادت کو ایک لڑی میں پرو دے، نہ کوئی مربوط نظامِ تعلیم جو دینی و عصری علوم کو ساتھ لے کر چلے۔ مدارس اب بھی روایتی نصاب تک محدود ہیں، جہاں سیاست، صحافت، سماجیات، قانون اور معیشت جیسے موضوعات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ نتیجتاً ان کے فارغ التحصیل علماء جدید فکری دنیا سے کٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس وسائل کی کمی نہیں۔ ملک کے بڑے آستانے اور خانقاہیں لاکھوں عقیدت مندوں اور کروڑوں کے بجٹ رکھتی ہیں، مگر یہ وسائل شخصی نمائش اور روحانی تقریبات تک محدود ہیں۔ علمی منصوبے، تحقیقی اکیڈمیاں، یا تھنک ٹینک اب تک خواب ہیں۔

میڈیا میں بھی ان کا کردار غیر منظم ہے۔ "مدنی چینل" جیسے پلیٹ فارم اگرچہ عوام میں مقبول ہیں، مگر ان کا مواد زیادہ تر جذباتی اور منبرانہ ہے، صحافتی یا تحقیقی نہیں۔ اس کے برعکس دیوبندی مکتب نے اپنے اخبارات، میگزین اور ویب پلیٹ فارمز کے ذریعے بیانیہ مضبوط کیا۔ "ضربِ مومن"، "روزنامہ اسلام"، "خواتین کا اسلام" اور "بچوں کا اسلام" نے بیس پچیس سال پہلے سے فکری سطح پر اثرات مرتب کرنا شروع کردیے تھے۔

تی ایل پی نے بریلوی عوامی طاقت کو ضرور منظم کیا، مگر ان کی سیاست اب بھی جذباتی نعروں اور احتجاجی ردِعمل تک محدود ہے۔ سیاسی قوت کے لیے جو فکری تربیت، صبر، استقامت اور پالیسی وژن چاہیے، وہ ابھی ناپید ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بریلوی مکتب میں ایسے اہلِ علم کم ہیں جو الحاد، سیکولر ازم، لبرل ازم یا مذہبی بیزاری جیسے جدید فکری چیلنجز پر سنجیدہ تحقیقی کام کر رہے ہوں۔ نہ کوئی تھنک ٹینک، نہ ریسرچ سینٹر، نہ علمی مجلات۔ اسی خلا نے ان کے فکری بیانیے کو وقت سے پیچھے چھوڑ دیا۔

بریلوی مکتب کی ایک نفسیاتی کمزوری یہ بھی ہے کہ اس کی شناخت ہمیشہ "ہم ان سے مختلف ہیں" کے اصول پر قائم رہی، بجائے اس کے کہ "ہم امتِ مسلمہ کا حصہ ہیں"۔ یہی رویہ فکری تنہائی اور نوجوان نسل سے دوری کا سبب بنا۔ آج کا نوجوان سوشل میڈیا اور فکری مکالمے کی دنیا میں رہتا ہے، مگر بریلوی خطابت کا انداز اب بھی پرانے منبر اور پرانی زبان میں الجھا ہوا ہے، لیکن یہ کہنا بھی انصاف نہ ہوگا کہ بریلوی مکتب صرف کمزوریوں کا مجموعہ ہے۔ اس مکتب میں محبتِ رسول ﷺ، روحانیت اور عوامی اثر جیسی بے پناہ قوتیں موجود ہیں۔ اگر یہی قوتیں علم، فکر اور تنظیم کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں تو یہ مکتب امت کے فکری و روحانی منظرنامے کا مرکز بن سکتا ہے۔

یہ تحریر کسی مکتب کی تضحیک نہیں، بلکہ اصلاح اور خود احتسابی کی دعوت ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ بریلوی قیادت اپنی روحانی طاقت کو فکری نظم میں ڈھالے، اپنی عوامی اکثریت کو تعمیری سمت میں لے جائے اور عشقِ رسول ﷺ کے جذبے کو عملی حکمتِ عملی کا عنوان دے۔ اگر ایسا ہوگیا تو بریلوی مکتبِ فکر امت کے اتحاد، فکری توازن اور روحانی استحکام کا محور بن سکتا ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari